جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

رخصتى كى تقريب ميں برائى كا ارتكاب

تاریخ اشاعت : 05-01-2010

مشاہدات : 8084

سوال

ميں تئيس برس كى لڑكى ہوں ميرے آفس كے ايك دوست نے فرورى ميں ميرے ساتھ شادى كا پيغام بھيجا ہے، ليكن ميرے والدين كا اصرار كيا كہ منگنى كى تقريب كو اپريل تك مؤخر كريں تا كہ وہ تيارى كر سكيں، يہ علم ميں رہے كہ منگنى كى تقريب ہمارے گھر ميں تھى نہ كہ ميرج ہال يا كسى اور جگہ بہرحال ہم نے صبر كيا اور الحمد للہ منگنى ہو گئى.
اور اس كے كچھ ہى عرصہ بعد فليٹ كے متعلق مشكلات شروع ہو گئيں، ميرا منگيتر بھى ابتدائى زندگى ميں باقى دوسرے نوجوانوں كى طرح ہى ہے، ليكن ميرے والد صاحب كا اصرار ہے كہ وہ اپنا فليٹ خريدے، حالانكہ ميرے منگيتر كے ساتھ اتفاق يہ ہوا تھا كہ اگر فليٹ نہ خريد سكا تو شادى كرنے كے ليے كرايہ پر فليٹ حاصل كريگا.
پھر ہم نے فليٹ تلاش كرنا شروع كيا تو جہاں ہم فليٹ ديكھتے وہاں والدين كو پسند نہ آتا، حالانكہ انہوں نے بغير كسى دليل اور مناقشہ كے ہم پر معين مقامات پر فليٹ كرايہ پر لينا لازم كيا تھا، وہ كہتے ہيں كہ فليٹ ہمارے قريب ہونا چاہيے، اور جب ہم بات كرنے كى كوشش كرتے ہيں تو والد صاحب مانتے نہيں اور منگنى توڑنے كى دھمكى ديتے ہيں، پھر ہم نے دوبارہ نئے سرے سے فليٹ كرايہ پر تلاش كرنا شروع كيا ليكن ہم چھوٹا فليٹ كرايہ پر لينا چاہتے ہيں، اور اچانك ميرے والد صاحب نے مجھے كہا كہ مجھے اس كى سوچ اور فكر اچھى نہيں لگى، اور دو برس كے ليے فليٹ كرايہ پر لينے ميں اس كى ضمانت نہيں ہے اور مجھے تيرے متعلق خطرہ ہے، اور مجھے زندگى ميں كوئى تجربہ حاصل نہيں ہے، اور ميں اپنے شعور اور احساس كے پيچھے بھاگ رہى ہوں، والد صاحب يہ منگنى توڑنا چاہتے ہيں، ميں مان گئى، ليكن ميرے منگيتر نے دوبارہ كوشش كى اور الحمد للہ ايك بار پھر يہ منگنى بحال ہو گئى. ہميں ايك نيا فليٹ مل گيا اور ہم نے يہ پانچ برس كے ليے كرايہ پر لے ليا، اور والد صاحب بھى مان گئے، اور وہ مجھے كہتے ہيں كہ يہ مضمون نہيں، يہ رمضان سے دو ہفتے قبل كى بات ہے، ہم نے والدہ كو تيارى كرنے پر راضى كرنے كى كوشش كى تا كہ وقت ضائع نہ ہو اور بغير استعمال كيے فليٹ كا كرايہ بھى ويسے ہى ادا نہ كرنا پڑے، ليكن والدہ نے انكار كر ليا اور كہنے لگى رمضان كے بعد ديكھيں گے.
ميرا منگيتر اس فليٹ كا كرايہ ادا كر رہا جسے حاصل كرنے پر ہميں مجبور كيا گيا ہے اور جگہ بھى والدين كى مرضى كے مطابق ہے تا كہ ميرے والدين كو پسند آ جائے، رمضان المبارك كے بعد ہم تيارى ہونے لگى اور منگيتر نے فليٹ كو رنگ كرانا اور گھريلو سامان خريدنا شروع كر ديا، اور گھريلو سامان كى خريدارى ميں ايك بار پھر مشكلات كا سامنا كرنا پڑا اور والدين كہنے لگے كہ انہيں ہم سے زيادہ علم ہے اور وہ زيادہ ذوق ركھتے ہيں، اور جو چيز انہيں پسند ہو گى وہى خريدى جائيگى چاہے وہ جتنى بھى مہنگى اور قيمتى ہو وگرنہ يہ منگنى توڑ دى جائيگى، مجبورا ہم نے ان كى مرضى كے مطابق گھريلو اشياء خريدى جن كى قيمت چواليس ہزار تھى، منگيتر نے اس پر موافقت كى تا كہ يہ منگنى ختم نہ ہو، اور ہم منگنى كى مدت كو كم كرنے كى كوشش كر رہے ہيں تا كہ اللہ ہمارى حفاظت فرمائے كيونكہ ہمارے درميان محبت ہے. اور اس ميں اضافہ ہو رہا ہے، ہم اپنى شادى ميں اللہ كى اطاعت چاہتے ہيں اور ميرا منگيتر اخلاق والا اور اپنے ارد گرد ہر شخص كو پسند كرنے والا ہے، ليكن افسوس ہے كہ ميرے والدين كو پسند نہيں كرتا.
اس نے گانے نہ سننے اور پينٹ شرٹ كو ترك كرنے ميں ميرى مدد كى ہے، اور ہر وقت مجھے اللہ كى نافرمانى سے دور رہنے كى ترغيب دلاتا رہتا ہے، ليكن افسوس والد صاحب اس كو تشدد محسوس كرتے ہيں، اور كہتے ہيں انہوں نے ميرى تربيت دين پر كى ہے وہ كافر تو نہيں اور نہ فاسق ہيں كہ اسے اس كا منگيتر جو كہتا ہے وہى كروں.
اب ہميں اور ايك اور بڑى مشكل يہ دركار ہے وہ رخصتى كے موقع كى تقريب ہے ہمارى خواب تھى كہ ہم ايك نيا كام سرانجام دينگے ميں كھلا اور واسع لباس پہنوں گى اور ميك اپ نہيں كرونگى اور نہ ہى سٹيج پر بيٹھوں گى جس ميں مرد و عورت كا اختلاط ہو.
ليكن يہ سارے خواب اس وقت چكنا چور ہو گئے جب ہم نے والد صاحب كو اس پر منانے كى كوشش كى اور اس كا سبب رخصتى كى تقريب كا خرچ زيادہ ہونا بتايا تو ميرے والد صاحب كہنے لگے ہم اس رخصتى كو ايك يا دو برس ليٹ كر ليتے ہيں تا كہ اس تقريب كے ليے رقم اكٹھى ہو جائے، اور ہم اس پر موافق ہو گئے، ليكن وہاں نہ تو رقص ہو اور نہ ہى ناچ گانا تو انہوں نے اس پر بھى بہت زيادہ اعتراض كيا، اور اب ميں يہ سوچ رہى ہوں كہ ہم ان كى بات مان ليتے ہيں ليكن رخصتى كى تقريب سے ايك روز قبل جب عقد نكاح لكھا جائے تو ہم ميرج ہال نہيں جائينگے بلكہ ہم سيدھے اپنے فليٹ ميں جائيں تا كہ ہم اپنى زندگى كى ابتدا اللہ كى نافرمانى و معصيت سے شروع نہ كريں، ليكن مجھے خدشہ ہے كہ اس ميں انہيں بہت زيادہ تكليف اور صدمہ سے دوچار ہونا پڑيگا، اور اس ميں ان كى ذلت و رسوائى ہو گى.
مجھے اس ميں كيا كرنا چاہيے كيا وہ مال جو اس تقريب ميں خرچ ہو گا وہ حرام ہے، يا ہميں ان كى موافقت كرتے ہوئے ميرج ہال جانا چاہيے، يا ہم انہيں چھوڑ ديں، ميں اپنے رب كى اطاعت كرنا چاہتى ہوں اگرچہ ميرے گھر والے اسے تشدد ہى سمجھتے ہوں.
ليكن يہ اس وقت ہى پورى ہو گا جب ميرى شادى ہو گى اور ميں اس گھر كو ترك كرونگى، ميں اپنے گھر والوں كا مقابلہ نہيں كر سكتى، حالانكہ مجھے علم ہے كہ وہ جو كچھ كہہ رہے ہيں وہ صحيح نہيں ليكن ميں ان كا مقابلہ نہيں كر سكتى.
ميرا منگيتر كہتا ہے كہ يہ اللہ كى طرف سے آزمائش ہے اس ميں ثابت قدمى كى ضرورت ہے، كيونكہ اگر ہم ان كى موافقت كرتے ہوئے تقريب ميں حاضر ہوتے ہيں تو ہم اللہ كے نافرمان ٹھرينگے، اور اگر نہ جائيں اور انہيں چھوڑ ديں تو يہ ميرے خاندان والوں كے ليے رسوائى اور ذلت كا باعث ہے، يہ علم ميں رہے كہ نكاح ہو جانے كے بعد ميں اپنے خاوند كى اطاعت ميں ہوں ليكن ميں اپنے گھر والوں كے ليے بھى حرج اور مشكل پيدا نہيں كرنا چاہتى.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

آپ كے ليے يہ جاننا ضرورى ہے كہ اللہ كى شريعت كا التزام كرنا اور اللہ كى حدود كو پامال نہ كرنا ايك عظيم نعمت ہے، اس كى قدر وہى جانتا ہے جس نے يہ نعمت چكھى ہو اور اسے يہ نعمت حاصل ہوئى ہو.

ہم نے آپ كے طويل سوال پر بھى غور كيا ہے، اور آپ كے والدين كے موقف پر بھى غور كرتے ہيں، پھر اللہ كى قسم ہميں اس پر تعجب ہوتا ہے جو آپ نے بيان كيا ہے كہ كبھى فليٹ كے حصول ميں والدين دخل اندازى كرتے ہيں، اور كبھى قيمتى گھريلو سامان كى خريدارى كرنے پر زور ديتے ہيں.

اور پھر رخصتى كى تقريب ميں ايسے اعمال سرانجام دينے كى حرص ركھنا جس پر اللہ راضى نہيں ہے، اور پھر شادى كو سال يا دو سال ليٹ كرنے كو قبول كرنا تا كہ اس تقريب كے ليے رقم اكٹھى ہو سكے، يہ سب كچھ دين كے حقيقى التزام سے دورى كا نتيجہ ہے.

يہ كام صرف شريعت كے اعبتار سے ہى غلط نہيں بلكہ اس ميں مال كا بھى ضياع ہے، اور پھر منگيتر كو بھى منتفر كرنا ہے، اور لڑكى كى شادى كى مصلحت ميں بھى تعطل پيدا كرنا ہے اور خاص كر معصيت دين اور دنيا كے فساد كا نام ہى ہے.

دوم:

مرد و عورت سے مخلوط يا پھر گانے بجانے اور موسيقى و رقص پر مشتمل تقريبات منانا جائز نہيں، اور اسى طرح دلہن اور بيوى كا ميك اپ كر كے اجنبى اور غير محرم مردوں كے سامنے آنا بھى جائز نہيں، بلكہ يہ سب برائى ہے اور اس سے دور رہنا واجب ہے، اور اس طرح كى تقريبات ميں شريك بھى نہيں ہونا چاہيے، اور يہ بھى غفلت ہے كہ خاوند اور بيوى اپنى زندگى كى ابتدا معصيت و نافرمانى سے شروع كريں.

سوم:

آپ نے جو كچھ بيان كيا ہے اگر آپ كے والدين اس پر مصر ہيں تو آپ كو درج ذيل كام كرنا ہونگے:

1 ـ ان دونوں كو نصيحت كريں اور انہيں بتائيں كہ اس طرح كى تقريبات جس سے اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى رضا حاصل نہيں ہوتى جائز نہيں.

2 ـ اس سلسلہ ميں آپ عقل و دانش ركھنے والے افراد سے معاونت حاصل كريں يا تو منگيتر كے خاندان سے يا پھر اپنے رشتہ داروں سے جو آپ كے والدين كو مطمئن كريں.

3 ـ آپ كے والد اہل علم ميں سے جس شخص كى بات سنتے اور تسليم كرتے ہيں اس سے معاونت حاصل كريں، يہ اس طرح كہ آپ اس عالم دين سے سوال دريافت كريں يا پھر اس سے كوئى نصيحت طلب كريں.

4 ـ والدين كو يہ ياد دہانى كرانا ضرورى ہے كہ شريعت كى بات ماننا واجب ہے، اور شريعت جو كہتى ہے اس كے سامنے سرخم تسليم كرنا چاہيے، اور خاص كر جبكہ آپ كے والدين يہ باور كرانے كى كوشش كراتے ہيں كہ وہ صحيح اور شريعت پر چلنے والے مسلمان ہيں، اور وہ كافر يا فاسق نہيں.

5 ـ منگيتر كو لڑكى كے خاندان والوں كے سامنے كمزور نہيں ہونا چاہيے، بلكہ وہ ايسا ہو كہ اس كى بات سنى جائے، اور وہ اپنے صحيح موقف پر اصرار كرے، وگرنہ اس كى ازدواجى زندگى بعد ميں اجيرن بن جائيگى اس كے نتيجہ ميں لڑكى والے اس كى زندگى ميں دخل اندازى كرتے ہى رہينگے.

6 ـ اگر مندرجہ بالا وسائل نہ مل سكيں، تو آپ يہ اعلان كر ديں كہ آپ كا ان برائيوں سے كوئى تعلق نہيں اور آپ اس كے ذمہ دار نہيں، اور آپ نہ تو اس كو مرتب كرنے ميں شريك ہوں اور نہ ہى اس ميں اپنى رقم خرچ كريں، پھر جب يہ تقريب منعقد كى جائے تو آپ دونوں اس سے غائب ہو جائيں، يا پھر وہاں جائيں ليكن جب اس طرح كى برائى ہونے لگے تو آپ ان سے عليحدہ ہو جائيں.

اگرچہ اس كا آپ كے والدين پرا اثر ہو گا ليكن وہ حل جس سے آپ حرام ميں پڑنے سے بچ سكتے ہيں وہ يہى ہے، اور آپ اس سے اپنے والدين كے ساتھ صحيح تعلق ركھنا چاہتے ہيں جو آپ كے والدين كو مستقبل ميں آپ كى زندگى ميں دخل اندازى كرنے سے روك سكے گا.

اور ہم اميد كرتے ہيں معاملہ اس آخرى حل تك نہيں پہنچے گا، ہو سكتا ہے جب آپ كے والدين يہ ديكھيں كہ آپ مكمل اصرار كے ساتھ اس تقريب سے انكار كر رہے ہيں تو وہ اس برائى سے رجوع كر ليں.

چہارم:

آپ كو ياد ركھنا چاہيے كہ منگيتر شخص بھى لڑكى كے ليے دوسرے اجنبى لوگوں كى طرح غير محرم ہى ہے، اس ليے اس كے ساتھ نہ تو مصافحہ كرنا جائز ہے، اور نہ ہى خلوت كرنى، اور نہ ہى بات چيت ميں نرم رويہ اور لچك پيدا كرنى، يہ اللہ كى حدود ہيں جس پر عمل كرنا اور ان كى پامالى سے اجتناب كرنا ضرورى ہے چاہے يہ عادات و عرف اور رسم و رواج كے خلاف ہى ہوں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يہ اللہ كى حدود ہيں ان كى پامالى مت كرو، اور جو كوئى بھى اللہ كى حدود پامال كرتا ہے تو يہى لوگ ظالم ہيں البقرۃ ( 229 ).

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو توفيق و كاميابى سے نوازے اور آپ كے ايمان و ہدايت اور اطاعت ميں اور اضافہ فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب