اتوار 28 جمادی ثانیہ 1446 - 29 دسمبر 2024
اردو

منگيتر كے ساتھ بعض حرام كام كيے اور طلاق دي تا كہ اس سے رجوع كا نہ سوچے

تاریخ اشاعت : 08-06-2011

مشاہدات : 5937

سوال

ميں نے ايك لڑكى سے منگنى كى اور ہم نے آپس ميں ايك دوسرے كا بوسہ بھى ليا، جس كے باعث ميں اسے ناپسند كرنے لگا اور اسے چھوڑ كر دوسرى لڑكى سے منگنى كر لى، ليكن گناہ كا احساس ميرا پيچھا كر رہا ہے، جب بھى يہ احساس زيادہ ہوا ميں نے واضح الفاظ ميں آواز كے ساتھ كہا ميرى پہلى منگيتر كو طلاق طلاق تا كہ مجھے اس سے رجوع كا حق حاصل نہ رہے اور دوسرى لڑكى كے ساتھ اپنے تعلق كو مضبوط كر سكوں.
ليكن اللہ كا كرنا ايسا ہوا كہ دوسرى لڑكى سے خاندانى مسائل كى بنا پر منگنى ختم ہو گئى اور ميں پہلى لڑكى كے بارہ ميں سوچنے لگا ليكن ميں تو نكاح سے قبل ہى اسے طلاق دے چكا تھا، تو كيا ميرے ليے رجوع كرنا جائز ہے تا كہ ميں اپنے گناہ كا كفارہ ادا كر سكوں يا كہ وہ ميرے ليے حلال نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مسلمان شخص پر واجب ہے كہ وہ مسلمانوں كى لڑكيوں اور عورتوں كے بارہ ميں اللہ كا خوف اور ڈر ركھے، اور اللہ كى حدود سے تجاوز مت كرے، جس نے بھى اللہ كى حدود سے تجاوز كيا وہ اپنے ليے ظلم و زيادتى كا مرتكب ٹھرا، اور پھر كوئى شخص تو اس وقت تك مومن ہى نہ ہو سكتا جب تك وہ اپنے مسلمان بھائى كے ليے بھى وہى پسند كرے جو اپنے ليے پسند كرتا ہے، اور جو اپنے ليے ناپسند كرتا ہے وہ اپنے مسلمان بھائى كے ليے ناپسند كرے.

دنيا ميں آپ ديكھيں گے كہ جو شخص بھى عقل و دانش ركھتا ہو، اور دين و مروت والا ہو وہ اپنے ليے يہ پسند نہيں كرتا كہ لوگوں ميں سے كوئى شخص اس كى بيٹى يا بہن سے منگنى كرے اور پھر اس سے وہ كچھ كرے جو اس كے ليے حلال نہيں يعنى اس سے بوس و كنار اور حرام خلوت كا مرتكب ہو.

اس ليے ہر شخص كو اللہ تعالى كى حرام كردہ اشياء اور مسلمانوں كى حرمت ميں اللہ تعالى كا تقوى اور ڈر اختيار كرنا چاہيے.

دوم:

ميرے مسلمان بھائى آپ كو علم ہونا چاہيے كہ منگيتر شخص اپنى منگيتر كے ليے اجنبى اور غير محرم ہے؛ كيونكہ منگنى تو صرف شادى كا ايك وعدہ ہے اسے شادى نہيں كہا جاتا، اور اس كے ليے جائز نہيں كہ وہ اپنى منگيتر كے ساتھ وہ كچھ كرے جو بيوى كے ساتھ ہو سكتا ہے، بلكہ وہ عورت تو اس كے ليے اجنبى اور غير محرم ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس كے ليے منگيتر سے خلوت كرنى جائز نہيں؛ كيونكہ وہ تو اس كے ليے حرام ہے، اور شريعت اسے صرف ديكھنے كى اجازت ديتى ہے كہ وہ اسے ديكھ سكتا ہے تا كہ شادى كى رغبت پيدا ہو جائے، اس ليے وہ نكاح تك اس كے ليے حرام ہى رہےگى اور اس ليے بھى كہ خلوت كى حالت ميں حرام كام كے وقوع كا خدشہ ہے.

اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كوئى آدمى كسى عورت سے خلوت مت كرے، كيونكہ ان كے ساتھ تيسرا شيطان ہوتا ہے "

اور نہ ہى وہ اسے شہوت اور لذت كى نظر سے ديكھ سكتا ہے، اور نہ ہى شك و ريب كى نظر سے، امام احمد رحمہ اللہ ايك روايت ميں فرماتے ہيں:

" يہ صحيح ہے كہ وہ اس كا چہرہ ديكھ سكتا ہے، اور يہ نظر لذت سے نہ ہو " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 74 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" منگيتر بھى ديكھنے اور اس سے بات چيت اور خلوت كے اعتبار سے دوسرى عورتوں جيسى ہى ہے، يعنى انسان كے ليے ايسا كرنا حرام ہے، ليكن اگر وہ اس سے شادى كرنا چاہتا ہے تو پھر بغير خلوت كيے اسے ديكھ سكتا ہے، اور اگر آدمى اپنى منگيتر كے ساتھ بيٹھنے اور بات چيت كا لطف اٹھانا چاہتا ہے تو وہ اس سے نكاح كر لے.

خلاصہ يہ ہوا كہ: منگيتر كے ليے اپنى منگيتر سے ٹيلى فون پر بات چيت كرنا، يا پھر كسى جگہ اس سے خلوت كرنا يا اسے اكيلا اپنے ساتھ گاڑى ميں لے كر جانا، يا وہ اس كے اور اس كے گھر والوں كے ساتھ ننگا چہرہ كر بيٹھے يہ سب حرام ہے " انتہى مختصرا

ديكھيں: فتاوى نور على الدرب ( 10 / 87 ).

سوم:

اس ليے كہ منگيتر لڑكى اجنبى اور غير محرم ہے اس كے ليے عقد نكاح كے بغير حلال نہيں، تو عقد نكاح سے قبل اسے طلاق دينا كچھ شمار نہيں ہوگا، كيونكہ طلاق اپنى جگہ اور موقع پر نہيں ہوئى.

ابو داود اور ابن ماجہ اور مسند احمد ميں حديث وارد ہے كہ عمرو بن شعيب عن ابيہ عن جدہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" طلاق اس ميں ہے جس كے تم مالك ہو، اور آزادى وہاں ہے جس كے تم مالك ہو، اور فروخت وہ ہو گى جس كے تم مالك ہو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2190 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2047 ) مسند احمد حديث نمبر ( 6893 ).

اس حديث كى سند حسن ہے اور اس كے شواہد بھى ہيں ديكھيں: ارواء الغليل ( 7 / 151 ).

امام بخارى رحمہ اللہ صحيح بخارى ميں باب باندھتے ہوئے كہتے ہيں:

" نكاح سے قبل طلاق كے متعلق باب اور اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو جب تم مومن عورتوں سے نكاح كرو اور پھر انہيں چھونے سے قبل طلاق دے دو تو تمہارے ليے ان پر كوئى حق عدت نہيں جسے تم شمار كرو، پس تم انہيں كچھ نہ كچھ دے دو، اور بھلے طريق سے انہيں رخصت كردو .

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ فرماتے ہيں:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے طلاق كو نكاح كے بعد ركھا ہے " انتہى

ديكھيں: صحيح بخارى ( 5 / 2015 ).

اس مسئلہ ميں اختلاف مشہور ہے:

ابن رشد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رہا مسئلہ اجنبى عورتوں سے شادى كرنے كى شرط پر طلاق معلق كرنا مثلا يہ كہے كہ: اگر ميں نے فلان عورت سے طلاق كيا تو اسے طلاق، اس مسئلہ ميں علماء كے تين اقوال ہيں:

پہلا قول:

اجنبى عورت سے طلاق معلق نہيں چاہے طلاق دينے والا عام ركھے يا مخصوص كرے، امام شافعى اور احمد اور داود اور ايك جماعت كا قول يہى ہے.

دوسرا قول:

شادى كى شرط پر طلاق معلق ہوگى چاہے طلاق دينے والے نے عام ركھا ہو يا مخصوص كي ہو، يہ قول امام ابو حنيفہ اور ايك جماعت كا ہے.

تيسرا قول:

اگر سارى عورتوں كے ليے عام ركھى تو لازم نہيں ہو گى اور اگر مخصوص كى تو لازم ہو گى، يہ قول امام مالك اور ان كے اصحاب كا ہے " انتہى

ديكھيں: بدايۃ المجتھد ( 2 / 67 ).

اس ميں صحيح يہى جو اوپر بيان ہو چكا ہے كہ نكاح سے قبل طلاق نہيں ہوتى، جمہور كا قول يہى ہے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نكاح سے قبل طلاق لازم نہيں آتى اور نہ ہى ملكيت سے قبل آزادى ہوتى ہے جب خاص كرے يا عام ركھے " يہ قول على بن ابى طالب اور معاذ بن جبل اور جابر بن عبد اللہ اور عبد اللہ بن عباس اور ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہم اور سعيد بن مسيب اور عطاء اور طاؤوس اور سعيد بن جبير اور ضحاك بن مزاحم اور على بن حسين اور ابو الشعثاء اور جابر بن زيد اور قاسم بن عبد الرحمن اور مجاہد اور محمد بن كعب قرظى اور نافع بن جبير بن مطعم اور عروہ بن زبير اور قتادۃ اور وہب بن منبہ اور عكرمہ رحمہ سے ثابت ہے.

اور سفيان بن عيينہ اور عبد الرحمن بن مہدى اور امام شافعى اور احمد بن حنبل اور اسحاق اور ابو ثور اور داود اور محمد بن جرير طبرى رحمہم اللہ كا بھى يہى قول ہے " انتہى مختصرا

ديكھيں: الاستذكار( 6 / 188 - 189 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جس نے قسم اٹھائى كہ وہ فلان عورت سے شادى كرے تو اسے طلاق، ليكن پھر اس كا ارادہ ہوا كہ وہ اس سے نكاح كر لے تو كيا اس كے ليے ايسا كرنا جائز ہے ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

" اس كے ليے اس عورت سے شادى كرنى جائز ہے، اور جب وہ اس سے شادى كرے تو جمہور سلف كے ہاں اسے طلاق واقع نہيں نہ ہوگى، اور امام شافعى اور احمد وغيرہ كا مسلك بھى " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 32 / 170 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں درج ہے:

ايك شخص نے قسم اٹھائى كہ جب بھى وہ كسى عورت سے نكاح كرے يا ہر عورت جس سے شادى كرے تو تو وہ ايسى؟

كميٹى كا جواب تھا:

" علماء كرام كے صحيح قول كے مطابق نكاح سے قبل طلاق كو معلق كرنے سے طلاق واقع نہيں ہوتى؛ كيونكہ ترمذى رحمہ اللہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے حسن سند كے ساتھ بيان كيا ہے كہ:

" نكاح سے قبل طلاق نہيں " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 192 ).

ليكن يہاں مذكور محل خلاف اس ميں ہے كہ اگر كوئى شخص يہ كہے كہ:

اگر ميں نے فلان عورت سے شادى كى تو اسے طلاق يا جس عورت سے بھى شادى كى اسے طلاق.

ليكن اگر اس نے اپنے سے كسى اجنبى عورت كو اس سے نكاح كے بغير ہى طلاق معلق كى تو يہ بلاشك لغو ہے، اور اصلا اس سے طلاق معلق نہيں ہوتى.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كا كہنا ہے:

" عقد نكاح سے قبل طلاق واقع نہيں ہوتى؛ كيونكہ طلاق تو خاوند كے علاوہ كسى سے ہو ہى نہيں سكتى، اور منگيتر جس نے ابھى نكاح كيا ہى نہيں وہ خاوند نہيں، اس ليے اس كى طلاق واقع نہيں ہو گى؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" طلاق تو اس كے ليے ہے جس نے پنڈلى پكڑى " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 20 / 191 ).

خلاصہ يہ ہوا كہ:

آپ نے جو بيان كيا ہے كہ آپ نے اپنى سابقہ منگيتر كے بارہ ميں طلاق كے الفاظ ادا كيے يہ لغو ہيں، اور اس كا اس سے نكاح پر كوئى اثر نہيں پڑيگا، اور نہ ہى يہ الفاظ آپ كے ليے اس سے نكاح كرنے ميں ركاوٹ ہيں، جب بھى آپ نكاح كى رغبت ركھيں اس سے نكاح كر سكتے ہيں، كہ اس سے نكاح ميں خير ہے تو نكاح كر ليں.

چہارم:

آپ اس سے نكاح اس ليے كرنا چاہتے ہيں كہ آپ اپنے گناہ كا كفارہ ادا كر سكيں، تو اس گناہ كا كفارہ ادا كرنے طريقہ يہ نہيں كہ آپ اس كو واپس ليں، بلكہ گناہ كا كفارہ يہ ہے كہ آپ اس گناہ پر توبہ و استغفار كريں، اور اپنےكيے پر نادم ہوں، اور يہ حرص ركھيں كہ مسلمانوں كى حرمت كا خيال ركھيں گے، اور پھر اگر آپ اور اس عورت كے ليے اس ميں مصلحت ہے تو آپ كا اس سے رجوع كرنے ميں كوئى شك و شبہ نہيں، اس ميں كوئى شك نہيں كہ وہ اس سے راضى ہوگى اور اس كى حالت كا خيال ركھا جائيگا، ليكن يہ رجوع اور واپسى اس طرح ہونى چاہيے كہ جو كچھ ہو چكا ہے اس سے توبہ كر كے صحيح راہ اختيار كيا جائے، اور اسى طرح اس عورت كو بھى اپنے كيے پر توبہ و استغفار كرنى چاہيے، اور آپ دونوں اس سے درس اور سبق حاصل كريں:

كہ شيطان كس طرح انسان كو اللہ كى نافرمانى ميں لگاتا ہے اور پھر نافرمانى كرنے والوں كے دلوں ميں كس طرح بغض و عداوت ڈالتا ہے، اور آپ اللہ سبحانہ و تعالى كے درج ذيل فرمان پر غور كريں اللہ نے معصيت و گناہ كرنے والوں كى آپس ميں محبت و مودت كا بيان كيا ہے اور اس كا معاملہ كيا ہوگا، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اس دن ( روز قيامت ) وہ آپس ميں ايك دوسرے كے دشمن ہونگے سوائے متقيوں كے الزخرف ( 67 ).

اس عورت كا آپ كے ساتھ مشكل ميں پھنسنے كا سبب يہ ہو سكتا ہے كہ اس نے آپ كو راضى كرنے كى كوشش كى تا كہ آپ كے ساتھ شادى ہو سكے، اور وہ اپنے پروردگار اللہ رب العالمين كى ناراضگى كو بھول گئى.

معاويہ رضى اللہ تعالى عنہ نے ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كو درخواست لكھى كہ مجھے كوئى ايسا خط لكھيں جس ميں نصيحت كريں جو مختصر ہو ؟

تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے معاويہ رضى اللہ تعالى عنہ كو خط لكھا:

السلام عليم:

اما بعد:

جس نے اللہ تعالى كو راضى كر كے لوگوں كى ناراضگى مول لى تو اللہ تعالى اس كے ليے لوگوں كى مشكل سے كافى ہو جائيگا، اور جس نے اللہ كو ناراض كر كے لوگوں كو خوش كيا تو اللہ سبحانہ و تعالى اسے لوگوں كے سپرد كر ديتا ہے"

والسلام عليكم "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2414 ) امام ترمذى نے اسے مرفوع بيان كيا ہے، اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا پر موقوف بھى ليكن صحيح يہى ہے كہ يہ روايت موقوف ہے، جيسا كہ دار قطنى رحمہ اللہ وغيرہ نے كہا ہے.

ديكھيں: العلل للدار قطنى ( 14 / 183 ).

اس ليے علماء كا كہنا ہے:

" غدر كرنے والے كو سب سے پہلا شخص حقير وہ سمجھتا ہے جس كے ساتھ غدر كرنے والے نہ غدر كيا ہو، اور جھوٹى گواہى دينے والے پر ناراض ہونے والا سب سے پہلا شخص وہ ہوتا ہے جس كے ليے اس نے جھوٹى گواہى دى ہو، اور زانى عورت سب سے پہلے اس شخص كى آنكھ ميں ذليل ہوتى ہے جس نے اس سے زنا كيا ہو "

ديكھيں: اخلاق والسير لابن حزم ( 75 ).

خلاصہ يہ ہوا كہ:

" آپ كے ليے اپنى سابقہ منگيتر سے رجوع كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اوپر جو كچھ بيان ہوا اس پر عمل كريں، اور يعنى آپ اور اس دونوں كى جانب جو كچھ ہو چكا ہے اس پر توبہ ہونا ضرورى ہے، اور آپ دونوں اپنے ماضى سے سبق حاصل كريں، پھر آپ جتنا جلدى ہو سكے اور قليل وقت ميں ممكن ہو تو اس سے شادى كر ليں.

اور ايك چيز صراحت كے ساتھ ہم آپ سے كہيں گے كہ ہميں آپ سے ظاہرى وسوسہ محسوس ہو رہا ہے، اور ہميں خدشہ ہے كہ يہ چيز آپ كى زندگى پر اثرانداز ہوگا، اور يہى وہ چيز ہے جس نے آپ كو يہ الفاظ نكالنے پر مجبور كيا تھا؛ اس ليے آپ وسوسہ سے اجتناب كريں، كہ كہيں يہ آپ كى زندگى اجيرن نہ كر كے ركھ دے، اور آپ كى دنيا و آخرت ہى خراب نہ كر دے.

آپ مزيد سوال نمبر ( 98452 ) اور ( 87496 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى سيدھى راہ كى راہنمائى كرنے والا اور توفيق بخشنے والا ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب