جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

بہن نماز ادا نہيں كرتى اور معاملات بھى اچھے نہيں ہيں

تاریخ اشاعت : 17-06-2011

مشاہدات : 8339

سوال

ميں اپنى چھوٹى بہن كا كيا كروں، وہ نماز ادا نہيں كرتى بلكہ ہميشہ لڑكى جھگڑتى رہتى ہے، اور گھر ميں سب ہى اس كے معاملات سے اكتا چكے ہيں، ہميں مشورہ ديں كہ ہم كيا كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہمارے ساتھ رابطہ كرنے پر ہم آپ كا شكريہ ادا كرتے ہيں اور اللہ تعالى سے دعا گو ہيں كہ وہ ہمارى راہنمائى فرمائے اور ہميں نفس كے شر سے محفوظ ركھے.

رہا آپ كى بہن كا حال تو اس دور ميں اكثر نوجوانوں كى حالت يہى ہے، اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ ہميں اور ان كو ہدايت نصيب فرمائے، اور ان كے متعلق ہم پر يہ واجب ہوتا ہے كہ:

اول:

اللہ سبحانہ و تعالى سے ان كے ليے ہدايت كى دعا مانگنى چاہيے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى ہى دلوں كو پھيرنے والا ہے ہو سكتا ہے دل سے نكلى ہوئى دعا اس كى دنيا و آخرت كى سعادت كا باعث بن جائے.

دوم:

اس كے ساتھ معاملات كرتے وقت يہ نہ سوچا جائے كہ وہ ابھى چھوٹى ہے، يا پھر اسے ابھى مصلحت كا ادراك نہيں، آپ اس كے ساتھ اس طرح معاملات كرنا چھوڑ ديں ـ خاص كر جب انسان قريب البلوغت عمر ميں ہو ـ تو انسان اپنے ارد گرد والوں سے چاہتا ہے كہ وہ اس كى اہميت كو محسوس كريں اور وہ يہ بالكل نہيں چاہتا كہ لوگ اس كے ساتھ ايسا معاملہ كريں كہ وہ ابھى تك چھوٹا ہے.

سوم:

كوشش كريں كہ آپ كى بہن نيك و صالح لڑكيوں كے ساتھ رابطہ ركھے، اور اس كى ايسى سہيليوں سے اسے دور ركھنے كى كوشش كريں جو نيك و صالح نہيں ہيں، حتى اگر اس كے ليے اس كا سكول تبديل كرنے كى ضرورت پيش آئے تو ايسا كرنے سے گريز نہ كريں.

ليكن يہ سب كچھ اس طرح كريں كہ اسے اس عمل كا احساس تك بھى نہ ہو اور وہ نہ جان سكے كہ ايسا اس كے ليے كيا گيا ہے؛ كيونكہ اگر اسے معلوم ہوگيا تو ہو سكتا ہے وہ عناد ميں آ كر ايسا نے ہونے دے جس سے مشكلات اور بڑھ جائيں.

چہارم:

آپ كو چاہيے كہ اس ميں آپ كى نظر اور سوچ اسے تنگ كرنے كى نہ ہو، بلكہ وہ جو اچھے كام كرتى ہے اس پر خوشى كا اظہار كريں، اور اگر كوئى اچھا كام كرے تو اسے تحفہ اور گفت بھى ديں.

پنجم:

آپ كے ليے ممكن ہے كہ آپ اسے سكول كے كسى ايسے شخص كے ذريعہ نصيحت كريں جسے وہ پسند كرتى ہے مثلا اس كى استانى يا پھر اس كى سہيلى يا كوئى اور.

ششم:

اس تك كوئى كتاب يا كيسٹ پہنچانے كى كوشش كريں جس ميں وعظ و نصيحت ہو، ليكن اسے خود نہ ديں بلكہ كسى اور طريقہ سے مثلا اس كے قريب ركھ ديں، يا پھر جب وہ گاڑى ميں ہو تو اسے كيسٹ سنائيں.

رہا مسئلہ كہ وہ نماز ادا نہيں كرتى تو يہ انتہائى خطرنا چيز ہے، كيونكہ دين اسلام ميں نماز تو اس ستون كى مانند ہے جس پر عمارت قائم ہوتى ہے.

اسى ليے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ہمارے اور ان ( كافروں ) كے مابين حد فاصل اور عہد نماز ہے، چنانچہ جس نے بھى نماز چھوڑى اس نے كفر كيا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2621 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترمذى حديث نمبر ( 2113 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور ايك روايت ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" بندے اور شرك و كفر كے مابين نماز ترك كرنا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 82 ).

آپ پر واجب ہے كہ اسے وعظ و نصيحت كريں، اور اسے دين كى طرف راغب كريں، تا كہ ترغيب اور ترھيب نرمى و سختى دونوں جمع كر سكيں، اور اگر معاملہ بعض اوقات سختى و شدت كا محتاج ہو تو شدت و سختى كرنے ميں بھى كوئى حرج نہيں.

كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اپنى اولاد كو سات برس كى عمر ميں نماز ادا كرنے كا حكم دو، اور جب دس برس كے ہوں تو انہيں ( نماز ادا نہ كرنے پر ) مارو، اور ان كے بستر عليحدہ كر دو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 495 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود حديث نمبر ( 466 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور يہ سختى و شدت اس كى مصلحت كے ليے ہے.

شاعر كہتا ہے:

سخت ہوا تا كہ لوگ اس سے ڈر جائيں، اور جو كوئى بھى نرمى اور رحم كرتا ہے اسے بعض اوقات ان پر سختى بھى كرنى چاہيے.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ سب مسلمانوں كے حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب