جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

عورت كے كہنے پر مرد كا تصوير بنانا

تاریخ اشاعت : 11-06-2008

مشاہدات : 9236

سوال

ايك بےپرد عورت نے ايك نوجوان سے كيمرہ كے ساتھ تصوير بنانے كا كہا تو نوجوان نے اس غير مسلم عورت كى تصوير اتار دى تو كيا اس كا يہ فعل جائز ہے يا كہ وہ شديد ممنوعہ كام كا ارتكاب كر بيٹھا ہے، اور اس طرح كے افراد كے ليے آپ كيا نصيحت كرتے ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان پر دينى احكام كى تعظيم كرنا اور دينى شعار پر فخر كرنا واجب ہے، اور اسے اپنى زبان كے ساتھ قولى دعوت سے قبل زبان حال كے ساتھ دينى دعوت دينى چاہيے، اور خاص كر جب معاملہ غير مسلم لوگوں كے ساتھ متعلق ہو.

اور دين مستقيم پر چلنے سے ہى مسلمان كو شرف و بلندى اور عزت حاصل ہوتى ہے، اور يہ ايك ايسا نور اور روشنى ہے جس سے وہ لوگوں كے درميان امتياز حاصل كرتا ہے، يہ كوئى ايسى چيز نہيں كہ جسے ظاہر كرنے سے شرمايا جائے، چہ جائيكہ سب كے سامنے دين كى مخالفت كى جائے.

اور يہ تو معلوم ہى ہے كہ ہمارى شريعت مطہرہ ميں اجنبى عورتوں كو بغير كسى ضرورت و حاجت كے ديكھنا حرام ہے، اور پھر ان كے بالوں اور زينت و خوبصورتى كو ديكھنا تو بالاولى حرام ہوا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

مؤمن مردوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنى نظريں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، يہ ان كے زيادہ پاكيزگى كا باعث ہے يقينا اللہ تعالى خبر ركھنے والا ہے جو وہ كرتے ہيں النور ( 30 ).

اور ابن بريدہ اپنے والد بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے على رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا:

" اے على ! ايك نظر كے بعد دوسرى نظر مت ڈالو، كيونكہ پہلى نظر تو تمہارے ليے ہے، اور دوسرى كا تمہيں كوئى حق نہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2149 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور يہ كسى پر بھى مخفى نہيں كہ كيمرہ كے ساتھ عورت كى تصوير اتارنى عورت كے چہرے اور اس كى شكل و صورت كو ديكھنے كا متقاضى ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ اس سے بات چيت اور نرم لہجہ اور حرام كردہ تبسم بھى پايا جاتا ہے، تو پھر جب عورت بے پردہ اور اپنى زيبائش اور خوبصورتى اور مفاتن كو ظاہر كرنے والى ہو تو كيا حالت ہو گى ؟ !

اصل ميں مسلمان شخص كو برائى سے انكار كرنا اور اس سے روكنا چاہيے، اور ہر اس كام سے رك جائے جو اللہ تعالى كے احكام كے مخالف ہو، اس پر سكوت اختيار نہيں كرنا چاہيے، اس پر مستزاد يہ كہ مسلمان شخص اس ميں معاونت كرے، اور اس ميں تساہل اور سستى كرے؟ !

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جو كوئى بھى تم ميں سے كسى برائى كو ديكھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے، اور اگر اس كى استطاعت نہ ركھتا ہو تو پھر اسے اپنى زبان سے روكے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہ ركھتا ہو ت واسے اپنے دل سے روكے، اور يہ ايمان كا كمزور ترين حصہ ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 49 ).

اس نوجوان كے لائق تو يہ تھا كہ وہ اس كو موقع غنيمت جانتے ہوئے اس عورت كو اسلام كى دعوت ديا، اور اسے پردہ كى فضيلت و پاكيزگى و طہارت اور شرف كى پہچان كرواتا، اور يہ بتاتا كہ مومن اور صالحہ و نيك عورتيں مريم عليہا السالم سے ليكر امہات المومنين اور مومنوں كى عام عورتيں سب اس فضل و شرف والے پردہ سے مزين تھيں، اور پردہ كيا كرتى تھيں.

اور يہ كہ شريعت اسلاميہ عورت كى عزت و عفت اور عصمت كو محفوظ كرتى ہے، اور اسے ايك بہت ہى قيمتى ہيرا قرار ديتى ہے جو ہر ايك چھونے والے كے ليے مباح اور جائز نہيں، ہو سكتا ہے اللہ تعالى اس عورت كو اس نوجوان كے ہاتھوں ہدايت نصيب فرماتا اور وہ اسلام قبول كر ليتى، اور اس كا يہ اسلام قبول كرنا اس نوجوان كى نيكيوں ميں شامل ہو جاتا.

اس ليے اس نوجوان كو اس عمل پر توبہ كرنى چاہيے، اور آئندہ ايسا نہيں كرنا چاہيے، اور آپ كو چاہيے كہ آپ اسے اس طرح كے كام كرنے سے اجتناب كرنا اور دور رہنا چاہيے، اور غير مسلموں كے سامنے اسلامى احكام كا اظہار بالاولى ہونا چاہيے، جب وہ اس شريعت كى تعليمات اور بلندى كو ديكھيں تو ہو سكتا ہے وہ عبرت حاصل كريں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو خير و بھلائى كى راہنمائى فرمائے، اور ہميں اور آپ كو ہدايت و حق اور ايمان كى تعليم دے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب