جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

نماز كے ممنوعہ اوقات وضوء كو شامل نہيں

تاریخ اشاعت : 11-11-2006

مشاہدات : 5162

سوال

بہت سى احاديث كى رو سے نماز كے ليے تيارى بھى نماز كے مرتبہ ميں آتا ہے، كيا اس كا معنى يہ ہے كہ طلوع يا غروب آفتاب ( صبح بارہ بجے اور شام بارہ بجے ) كے دوران وضوء كرنا جائز نہيں ؟ يا كہ جائز ہے ؟
اور جب انسان فرضى نماز لمبى كر كے ادا كر رہا ہو كہ طلوع يا غروب آفتاب كا وقت ہو جائے تو كيا وہ نماز توڑ دے يا كہ اسے مكمل كرے ؟
اگر نماز تراويح لمبى ہو جائيں اور رات بارہ بجے سے پہلے ختم نہ ہوں تو كيا ہميں رات بارہ بجے كے بعد دوبارہ وضوء كرنا ہوگا، يا كہ اثر انداز نہيں ہو گا كہ ايك ہى نماز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

صحيح مسلم ميں عقبہ بن عامر جھنى رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں تين اوقات ميں نماز ادا كرنے اور ميت كو قبر ميں دفنانے سے منع فرماتے تھے: جب سورج طلوع ہو رہا ہو حتى كہ اونچا ہو جائے، اور جب زوال كا وقت ہو حتى كہ سورج مائل ہو جائے، اور جب سورج غروب ہونے كے ليے جھك جائے "

صحيح مسلم صلاۃ المسافريں و قصرھا حديث نمبر ( 1373 ).

چنانچہ اس حديث ميں نماز ادا كرنے اور ميت كو دفنانے كى ممانعت ہے اور وضوء كے ليے مطلقا نماز كا حكم شمار نہيں ہو گا، كيونكہ نماز اسے كہتے ہيں جو معلوم اقوال، اور معلوم افعال جس كى ابتدا تكبير تحريمہ سے، اور انتہاء سلام سے ہو.

اور حديث ميں ممانعت بھى اسى چيز كى ہے، نہ كہ وضوء كى، اور ممانعت ميں وضوء كو نماز پر قياس كرنا يہ قياس مع الفارق ہے، ايسا قياس صحيح نہيں، چنانچہ اگر كوئى شخص دوران وضوء كلام كر لے تو اس كا وضوء باطل نہيں ہوگا، ليكن كلام نماز كو باطل كر ديتى ہے، اس كے علاوہ بھى وضوء اور نماز ميں كئى ايك فرق موجود ہيں.

مقصد يہ ہے كہ ان اوقات ميں وضوء كى ممانعت كے ليے نماز پر قياس كرنا صحيح نہيں، بلكہ انسان كے ليے تو طہارت كى حالت ميں رہنا مستحب ہے.

دوم:

اگر فرضى نماز ادا كر رہا ہو اور طلوع يا غروب شمس كا وقت قريب ہو تو وہ نماز نہ توڑے؛ كيونكہ وقت ميں نماز كى ايك ركعت بھى پا لينا بروقت نماز ادا كرنا ہے، مثلا اگر وہ نماز فجر ادا كر رہا ہو اور ركعت لمبى ادا كرے اور پھر دوسرى ركعت شروع كى تو وہ بھى لمبى كر دى اور سورج طلوع ہو جائے تو اس وقت كہا جائيگا كہ اس كے فعل ميں كوئى حرج نہيں، اس نے نماز وقت ميں ادا كى ہے.

اور اگر اس كى ايك ركعت بھى مكمل نہيں ہوئى اور سورج طلوع ہو گيا تو اس نے نماز وقت ميں ادا نہيں كي وہ نماز لمبى كرنے ميں گنہگار ہے، اسى طرح عصر اور دوسرى نمازوں ميں بھى يہى كہا جائيگا.

سوم:

اگر انسان باوضوء ہے، اور اس كا وضوء نہيں ٹوٹا تو اس كے ليے دوبارہ وضوء كرنا ضرورى نہيں، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ايك ہى وضوء سے كئى ايك نمازيں ادا كرنا ثابت ہيں، جيسا كہ فتح مكہ كے روز ايك ہى وضوء سے پانچوں نمازيں ادا كى تھيں.

سليمان بن بريدۃ اپنے باپ بريدہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فتح مكہ كے روز ايك ہى وضوء كے ساتھ نمازيں ادا كيں، اور اپنے موزوں پر مسح كيا، تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كيا: آپ نے آج وہ كام كيا جو آپ پہلے نہيں كيا كرتے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اے عمر ميں يہ كام عمدا كيا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 277 ).

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس حديث ميں كئى چيزيں بيان ہوئى ہيں: موزوں پر مسح كرنا جائز ہے اور ايك ہى وضوء كے ساتھ جب تك وضوء نہ ٹوٹے فرضى اور نفلى نمازيں ادا كرنا جائز ہيں، اور معتبر اجماع كے مطابق جائز ہے.

ابو جعفر طحاوى اور ابو الحسن بن بطال رحمہما اللہ نے صحيح بخارى كى شرح ميں علماء كرام كے ايك گروہ سے يہ قول نقل كيا ہے:

اگرچہ باوضوء بھى ہو تو پھر بھى ہر ايك نماز كے ليے وضوء كرنا ضرورى ہے، اس كى دليل يہ ديتے ہيں:

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو جب تم نماز كے ليے كھڑے ہوؤ تو اپنے چہرے اور كہنيوں تك ہاتھ دھو ليا كرو، اور اپنے سروں كا مسح كرو، اور دونوں پاؤں ٹخنوں تك دھويا كرو، اور اگر تم جنابت كى حالت ميں ہو تو پھر طہارت كرو اور اگر تم مريض ہو يا سفر ميں يا تم ميں سے كوئى ايك پاخانہ كرے يا پھر بيوى سے جماع كرے اور تمہيں پانى نہ ملے تو پاكيزہ مٹى سے تيمم كرو اور اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مسح كرلو، اللہ تعالى تم پر كوئى تنگى نہيں كرنا چاہتا، ليكن تمہيں پاك كرنا چاہتا ہے، اور تم پر اپنى نعمتيں مكمل كرنى چاہتا ہے، تا كہ تم شكر كرو المآئدۃ ( 6 ).

ميرے خيال ميں يہ مذہب ايك سے بھى صحيح ثابت نہيں، ہو سكتا ہے اس سے ہر نماز كے وقت تجديد وضوء مراد ليتے ہوں.

جمہور اہل علم كى دليل صحيح احاديث ہيں، جن ميں يہ حديث بھى شامل ہے.

اور صحيح بخارى ميں انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہر نماز كے وقت وضوء كرتے، اور ہم ميں سے اس كا وضوء اس وقت تك كافى ہوتا جب تك ٹوٹتا نہ "

اور صحيح بخارى ميں ہى سويد بن نعمان رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث بھى ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نماز عصر ادا كى اور ستو كھائے پھر بغير وضوء كيے ہى نماز مغرب ادا كى "

اس معنى كى احاديث بہت ہيں، مثلا ميدان عرفات اور مزدلفہ ميں دو نمازيں جمع كرنا، اور باقى سارے سفروں ميں نمازيں جمع كر كےادا كرنا، اور جنگ خندق كے موقع پر فوت شدہ نمازيں جمع كرنا، اس كے علاوہ كئى ايك مواقع پر.

مندرجہ بالا آيت سے مراد ـ واللہ اعلم ـ يہ ہے كہ جب تم بے وضوء ہو جاؤ اور نماز ادا كرنے كے ليے كھڑے ہو تو وضوء كرو، ، اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فعل كے ساتھ منسوخ ہے، ليكن يہ قول ضعيف ہے, واللہ اعلم.

اور عمر رضى اللہ تعالى عنہ كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ كہنا:

" آپ نے آج ايسا كام كيا ہے جو آپ نہيں كرتے تھے ؟ "

اس ميں اس بات كى تصريح ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم افضل پر عمل كرتے ہوئے ہر نماز كے ليے تازہ وضوء كرنے پر ہميشگى كيا كرتے تھے اور فتح مكہ كے روز ايك ہى وضوء سے نمازيں جواز بيان كرنے كے ليے ادا فرمائيں، جيسا كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اے عمر ميں نے ايسا عمدا اور جان بوجھ كر كيا ہے "

ديكھيں: شرح مسلم ( 3 / 177 - 178 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد