جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

وضوء ميں گردن كا مسح كرنا مشروع نہيں

تاریخ اشاعت : 18-02-2007

مشاہدات : 13554

سوال

كيا وضوء كرتے وقت گردن كا مسح كرنا مشروع ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

وضوء ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہ ہونے كى بنا پر گردن كا مسح كرنا مستحب نہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ صحيح نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے وضوء ميں گردن كا مسح كيا، بلكہ كسى صحيح حديث ميں بھى اس كا ثبوت نہيں ملتا، بلكہ جن صحيح احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے وضوء كا طريقہ بيان ہوا ہے اس ميں ذكر نہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم گردن كا مسح كيا كرتے تھے، اس ليے جمہور علماء كرام امام مالك، امام شافعى، امام احمد كے ظاہر مسلك ميں گردن كا مسح كرنا مستحب نہيں.

اور جس نے اسے مستحب قرار ديا ہے اس نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كے مروى اثر يا ضعيف حديث جس كا نقل كرنا ہى صحيح نہيں سے استدلال كيا ہے، كہ انہوں نے گدى تك گردن كا مسح كيا " اس طرح كا اثر يا حديث قابل حجت نہيں، اور صحيح احاديث كے مقابلہ ميں پيش نہيں ہو سكتى، علماء كرام اس پر متفق ہيں كہ گردن كا مسح نہ كرنے سے وضوء صحيح ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 21 / 127 ).

يہ حديث :

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے گدى تك گردن كا مسح كيا " اسے ابو داود نے حديث نمبر ( 132 ) ميں روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف ابو داود ميں اسے ضعيف كہا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى نے " المجموع " ميں گردن كے مسح ميں امام شافعى كے اصحاب كا اختلاف ذكر كرنے كے بعد كہا ہے:

" ان كے اقوال كا يہ اختصار ہے، جس كا ماحاصل چار وجہيں ہيں:

پہلى:

نئے پانى كے ساتھ مسح كرنا مسنون ہے.

دوسرى:

مسنون نہيں بلكہ مستحب ہے.

تيسرى:

سر اور كانوں كے مسح سے باقى مانندہ پانى سے مسح كرنا مستحب ہے.

چوتھى:

نہ تو مستحب ہے اور نہ ہى مسنون.

يہ آخرى اور چوتھى وجہ ہى صحيح ہے، اسى ليے امام شافعى رحمہ اللہ نے اس كا ذكر كيا ہے، اور نہ ہى ہمارے متقدم اصحاب نے، اور اكثر مصنفين نے بھى اس كا ذكر نہيں كيا، اور اس سلسلے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بھى كوئى ثبوت نہيں ملتا.

بلكہ صحيح مسلم وغيرہ ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:

" اس كے سب سے برے امور بدعات ہيں، اور ہر بدعت گمراہى ہے "

اور صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے بھى ہمارے اس دين ميں كوئى ايسا كام ايجاد كيا جو اس ميں سے نہيں تو وہ مردود ہے "

اور صحيح مسلم كى روايت ميں ہے:

" جس نے بھى كوئى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں تو وہ كام مردود ہے "

اور جو حديث طلحہ بن مصرف عن ابيہ عن جدہ كے طريق سے مروى ہے كہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو گدى تك اور گردن كےآگے تك گردن كا مسح كرتے ہوئے ديكھا "

يہ حديث متفقہ طور پر ضعيف ہے.

اور غزالى رحمہ اللہ كا يہ قول: " گردن كا مسح كرنا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت ہے "

" گردن كا مسح كرنا طوق سے امان ہے "

يہ صحيح نہيں، كيونكہ يہ موضوع اور من گھڑت ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام نہيں ہے " انتہى.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 1 / 489 ).

الغل: طوق اور زنجير اور بيڑيوں كو كہتے ہيں، جو گردن ميں ڈالى جائيں، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

يہ وہ لوگ ہيں جنہوں نے اپنے رب كے ساتھ كفر كيا اور يہى ہيں جن كى گردنوں ميں طوق ڈالے جائينگے الرعد ( 5 ).

اور ايك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور جنہوں نے كفر كا ارتكاب كيا ہم نے ان كى گردنوں ميں طوق ڈال ديے وہ جو كچھ عمل كرتے رہے انہيں اسى كى سزا دى جائيگى سبا ( 33 ).

اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اور گردن پر مسح كرنے ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے بالكل كوئى حديث ثابت نہيں " انتہى.

ديكھيں: زاد المعاد لابن قيم ( 1 / 195 ).

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" گردن كا مسح كرنا نہ تو مستحب ہے اور نہ ہى مشروع، بلكہ صرف سر اور دونوں كانوں كا مسح كيا جائيگا، جيسا كہ كتاب و سنت سے ثابت ہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن باز ( 10 / 102 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب