جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

كيا لڑكى پتلون ( پينٹ ) ميں نماز ادا كر سكتى ہے ؟

تاریخ اشاعت : 09-10-2006

مشاہدات : 11312

سوال

كيا نوجوان لڑكى پتلون پہن كر نماز ادا كر سكتى ہے، اور نماز كى ادائيگى كے ليے شرعى لباس كونسا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

نماز کیلئے ہر وہ لباس شرعى ہے جو چہرہ اور ہاتھوں كے علاوہ باقى سارے جسم كے ليے ساتر اور ڈھیلا ڈھالا ہو، اور جسم كے كسى عضو كو نمایاں نہ كرتا ہو۔

نماز کیلئے سارے بدن كو ڈھانپنے والے لباس كى شرط ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ جب ان سے دريافت كيا گيا كہ عورت كس لباس ميں نماز ادا كرے تو انہوں نے جواب ديا: " عورت كو نماز دوپٹے اور ایسے لباس میں ادا كرنى چاہيے جس ميں اس كے پاؤں كا اوپر والا حصہ بھى چھپ جائے " سنن ابو داود :( 639 )

يہ حديث نبى صلى اللہ علیہ وسلم سے مرفوعا بھى بيان كى گئى ہے چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ " بلوغ المرام " صفحہ ( 40 ) ميں كہتے ہيں:

"ائمہ كرام اس کے موقوف ہونے کو صحیح قرار دیتے ہیں، اور ابن تیمیہ رحمہ اللہ كہتے ہيں: "مشہور يہ ہے كہ: يہ روايت ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا پر موقوف ہے، ليكن يہ مرفوع كے حكم ميں ہے "

دیکھیں: شرح العمدۃ كتاب الصلاۃ صفحہ نمبر ( 365 )

اور پھر رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اللہ تعالى بالغ عورت كى نماز اوڑھنى كے بغير قبول نہيں فرماتا "

سنن ابو داود :( 641 ) ،سنن ترمذى :( 377 ) ،سنن ابن ماجہ :( 655 ) ، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الجامع :( 7747 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے۔

حدیث کے عربی متن میں مذکور: "حائض " سے نوجوان بالغ عورت مراد ہے۔

اور "خمار" اس اوڑھنى كو كہتے ہيں جس سے عورت اپنا سر ڈھنانپتى ہے۔

"درع" وہ قميص ہے جس سے عورت اپنا بدن اور ٹانگيں چھپاتى ہے، اور جب وہ اوپر سے نيچے تك لمبى ہو تو اسے "سابغ" كہتے ہيں۔

دیکھیں: عون المعبود شرح سنن ابو داود

چنانچہ لباس چہرے كے علاوہ باقى سارے بدن كے ليے ساتر ہونا ضرورى ہے، اور علمائے كرام كا اس ميں اختلاف ہے كہ آيا نماز ميں عورت كے ليے ہتھيلياں اور قدم چھپانے واجب ہيں يا نہيں ؟

جمہور علمائے كرام ہتھیلیوں كو چھپانا واجب نہیں سمجھتے ، جبکہ امام احمد سے اس بارے میں دو روایات ہيں: اور شيخ اسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ نے عدم وجوب كو اختيار كيا ہے، اور " الانصاف " ميں انہوں نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ: "یہی موقف درست ہے"

جبکہ قدموں کے بارے میں جمہور مالکی، شافعی، حنبلی انہیں ڈھانپنے کے قائل ہیں، اسی پر دائمی فتوی کمیٹی (6/178) کا فتوی ہے۔

اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" نماز ميں چہرے كے علاوہ عورت كا سارا جسم ستر ہے، جبکہ ہتھیلیوں کے بارے ميں علمائے كرام كا اختلاف ہے: بعض علماء نے انہيں بھى چھپانا واجب قرار ديا ہے، اور بعض نے كھلا ركھنے كى اجازت دى ہے، ان شاء اللہ اس مسئلہ ميں وسعت ہے، ليكن ننگا ركھنے سے چھپانا افضل ہے، تا كہ اس مسئلہ ميں علماء كرام كے اختلاف سے بچا جائے، جبکہ جمہور اہل علم كے ہاں نماز ميں قدموں کو چھپانا واجب ہے " انتہى

"مجموع فتاوى ابن باز "( 10 / 410 )

اور امام ابو حنیفہ ، ثورى، اور مزنى رحمہم اللہ نماز ميں عورت كے قدموں كو ننگا ركھنے كے قائل ہيں، شيخ الاسلام ابن تيميہ اور مرداوى نے " الانصاف " میں اسی موقف کو اختيار كيا ہے۔

شيخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "شرح الممتع":(2/161) میں كہتے ہيں:

" اس مسئلہ ميں كوئى واضح دليل نہيں ہے، اسى ليے شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:"آزاد عورت کو مکمل طور پر ستر ہے، صرف وہ اعضاء جو اپنے گھر ميں کھلے رکھ سکتی ہے، یعنی چہرہ ہتھيلياں اور قدم ستر نہیں ہیں"، اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ : "رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كے دور ميں عورتيں گھروں ميں قمیصیں پہنا كرتى تھيں، اور ہر عورت كے پاس دو كپڑے نہيں تھے اسى ليے جب اسے حيض آتا تو وہ اسے دھو كر اس لباس ميں ہى نماز ادا كرتى تھىں، تو اس طرح قدم اور ہتھيلياں نماز ميں ستر نہيں، اسکا مطلب یہ نہیں کہ قدم، اور ہاتھ پر نظر ڈالی جاسکتی ہے۔

اور اس بنا پر كہ اس مسئلہ ميں كوئى ايسى دليل نہيں جس پر نفس مطمئن ہو، ميں اس مسئلہ ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كى تقليد كرتا اور كہتا ہوں کہ: ظاہری طور پر یہی لگتا ہے، اگرچہ ہم يہ بات ٹھوس لفظوں میں نہیں کہہ سکتے، كيونكہ چاہے عورت كا لباس اتنا لمبا ہو كہ وہ زمين پر لگ رہا ہو ليكن سجدہ كرتے وقت اس كے پاؤں كا نیچے والا حصہ ننگا تو ہو ہی جائيگا " انتہى

مزيد تفصیل ديكھنے كے ليے آپ "المغنى " ( 1 / 349 ) ، المجموع ( 3 / 171 ) ، بدائع الصنائع ( 5 / 121 ) ، الانصاف ( 1 / 452 ) اور مجموع الفتاوى ابن تيميہ ( 22 / 114 ) دیکھیں۔

اور اگر لباس اتنا باريك ہو كہ وہ نيچے سے بدن كو ظاہر كرے، اور اس كے نيچے سے جلد كا رنگ ظاہر ہوتا ہو تو يہ لباس باعث پردہ نہيں ہو گا۔

"روضۃ الطالبين" از: نووى ( 1 / 284 ) اور المغنى ( 2 / 286 )

اس كى دليل ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:" جہنمیوں کی دو قسمیں ميں نے ابھی تک نہیں دیکھیں، ايك وہ قوم جس كے پاس گائے كى دموں كى طرح دُرّے ہونگے وہ اس سے لوگوں كو مارتے ہونگے اور [دوسری قسم]لباس پہننے کے باوجود ننگی عورتیں۔۔۔ "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2128 )

حدیث کے لفظ: " كاسيات عاريات " کے بارے میں امام نووى رحمہ اللہ "المجموع"(4/3998) میں كہتے ہيں: اس كى وضاحت ميں كہا گيا ہے كہ : "وہ اتنا باريك لباس پہنے جو اس كے بدن كا رنگ واضح كرے"اور يہى معنى پسندیدہ ہے۔ انتہى

اور ابن عبد البر رحمہ اللہ "التمہید"(13/204) میں كہتے ہيں:

" حدیث کے الفاظ: " كاسيات عاريات " كا معنى يہ ہے كہ: رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم كى اس جملہ سے مراد وہ عورتيں ہيں جو اتنا باريك لباس پہنتى ہيں جو ان كا بدن ظاہر كرے اور چھپائے نہ، وہ نام كے اعتبار سے تو لباس پہنے ہوئے ہيں، ليكن حقيقت ميں ننگى ہيں " انتہى

عورت كا لباس كھلا اور لمبا چوڑا ہونے كى دليل اسامہ بن زيد رضى اللہ عنہما کی حدیث ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے ايك قبطى لباس پہننے كے ليے دیا، جو انہيں دحيہ كلبى نے بطور ہديہ دیا تھا، چنانچہ ميں نے وہ لباس اپنى بيوى كو پہنا دیا تو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ( تم وہ قبطى لباس كيوں نہيں پہنتے ؟ ) تو ميں نے عرض كيا: "وہ تو ميں نے اپنى بيوى كو دے دىا ہے"، تو رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: (اسے كہو كہ وہ اس كے نيچے شميض پہنے، مجھے خدشہ ہے كہ وہ اس كے جسم كى ہڈيوں كى ساخت اور حجم واضح كرے گى )

بیہقی نے سنن الكبرى ( 2 / 234 ) ميں روايت كيا اور البانى نے " جلباب المراۃ المسلمہ" ( 131 ) ميں حسن قرار ديا ہے۔

"قطبی لباس" انتہائی سفيد سوتی اور باريك لباس ہے جو مصر ميں بنایا جاتا تھا، لسان العرب ( 7 / 373 )

حدیث کے عربی الفاظ میں مذکور "غلالۃ" وہ کپڑا ہے جو لباس كے نيچے پہنا جائے۔

اس بنا پر عورت كے ليے تنگ اور چست فٹنگ والا لباس مثلا پينٹ اور پتلون وغيرہ ايسا لباس پہننا جائز نہيں جو اس كے ستر كو واضح كر كے ظاہر كرے۔

جبکہ اسکی نماز ہوگی یا نہیں ، اس بارے میں یہ ہے کہ اگر مخالفت کرتے ہوئے تنگ لباس میں نماز پڑھ لے تو اسکی نماز درست ہے، کیونکہ ستر ڈھانپنا واجب ہے، اور وہ اس نے ڈھانپ رکھا ہے۔

مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 46529 ) كے جواب كا مطالعہ كريں۔

اور شيخ صالح الفوزان كہتے ہيں:

" ايسا تنگ لباس جو عورت كے جسم اور اعضاء اور اس كے پچھلے حصہ اور اعضاء كے خد وخال واضح كرتا ہو اس كا پہننا جائز نہيں، تنگ لباس نہ تو مردوں كے ليے اور نہ ہى عورتوں كے ليے پہننا جائز ہے، ليكن عورتوں كے ليے ليے تو اور بھى زيادہ شديد منع ہے، كيونكہ ان كے ساتھ فتنہ زيادہ ہوتا ہے۔

رہا مسئلہ نماز كا؛ تو جب انسان نماز ادا كرے اور اس كا ستر اس لباس كے ساتھ ڈھانپا ہوا ہو؛ تو اس كى نماز صحيح ہے؛ كيونكہ ستر ڈھانپا ہوا ہے، ليكن تنگ لباس ميں نماز ادا كرنے والا گنہگار ہو گا؛ اس ليے كہ اس نے لباس تنگ ہونے كى بنا پر نماز ميں مشروع اشياء ميں كچھ نہ كچھ خلل پيدا ہوا ہے ،یہ تو ایک اعتبار سے ، دوسرے اعتبار سے یہ ہے کہ تنگ لباس خاص طور پر خواتین کا لباس توجہ كا باعث بنےگا،اس لئے خواتین کیلئے کھلے ، ڈھیلے ڈھالے ، اور پورے جسم کو ڈھانپنے والے لباس لازمی طور پر زیب تن کریں، جو اسکے جسم کے کسی حصہ کو نمایاں مت کرے، اور نہ ہی دیکھنے والوں کیلئے جاذب نظر ہو، اسی طرح باریک شفاف، لباس کی بجائے، مکمل طور پر اچھی طرح جسم کو ضرور ڈھکے" انتہى

المنتقى من فتاوى شيخ صالح الفوزان ( 3 / 454 ) .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب