بدھ 26 جمادی اولی 1446 - 27 نومبر 2024
اردو

اسلام قبول كرنے والى عورت نے گھر والوں كى لاعلمى ميں شادى كر لى

سوال

ميرا تعلق چائنہ سے ہے اور ميں نے ايك لبنانى مسلمان شخص سے شادى كى ہے، ميرے اسلام قبول كرنے كا پہلا اور بنيادى سبب بھى يہى ہے ..
ہم نے اسلامى طريقہ سے شادى كى ليكن يہ شادى كچھ مشكلات كى بنا پر ہمارے خاندان كے علم كے بغير ہوئى تھى كيا آپ كے خيال ميں يہ حرام ہے، يعنى كيا يہ قرآن مجيد كے مخالف ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كتاب و سنت كے دلائل سے ثابت ہے عورت ولى كے بغير نكاح نہيں كر سكتى، كيونكہ عورت كا ولى ہى اس كے بارہ ميں احتياط كرتا اور اس كى مصلحت كو مدنظر ركھتا ہے تا كہ شيطان صفت مرد اسے دھوكہ نہ دے.

اور پھر اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تم ان كا نكاح ان كے گھر والوں كى رضامندى سے كرو .

ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

اسے پانچوں نے روايت كيا اور ابن مدينى رحمہ اللہ نے صحيح قرار ديا ہے.

امام ترمذى رحمہ اللہ كہتے ہيں: اس باب ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى حديث:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

پر ہى اہل علم صحابہ كرام جن ميں عمر بن خطاب اور على بن ابى طالب اور عبد اللہ بن عباس اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم وغيرہ شامل ہيں ان سب كا عمل ہے " اھـ

چنانچہ جب آپ كا كوئى ولى مسلمان ہے مثلا باپ يا بھائى يا پھر چچا يا چچا كا بيٹا تو يہ آپ كے نكاح ميں آپ كا ولى ہو گا، اس ليے اس ولى كى اجازت اور رضامندى كے بغير نكاح صحيح نہيں ہوگا، اور اس نكاح ميں اس ولى كا بنفسہ خود موجود ہونا يا پھر اس كى نيابت كرتے ہوئے اس شخص كا موجود ہونا ضرورى ہے جسے وہ وكيل بنائے.

اور اگر آپ كے سارے ولى ہى غير مسلم ہوں، تو پھر كسى كافر كو مسلمان عورت پر ولايت حاصل نہيں ہے.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كافر كو كسى بھى حالت ميں مسلمان پر ولايت حاصل نہيں، اس ميں اہل علم كا اجماع ہے "

اور ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جن سے بھى ہم نے علم حاصل كيا ہے وہ عموما اس پر متفق ہيں "

اور امام احمد رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ہميں يہ روايت پہنچى ہے كہ علي رضى اللہ عنہ نے بھائى كا نكاح جائز قرار ديا، اور ايك باپ جو كہ نصرانى تھا اس كا نكاح رد كر ديا "

ديكھيں: المغنى ( 7 / 356 ).

بلكہ كسى مسلمان شخص كو اس كى كافر اولاد پر نكاح ميں ولايت حاصل نہيں.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

ايك شخص مسلمان ہو گيا تو كيا اس كى كتابى اولاد پر اسے ولايت حاصل ہو گى ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

" اسے نكاح ميں ان پر كوئى ولايت حاصل نہيں، اور اسى طرح اسے ميراث ميں بھى ولايت نہيں ہے، اس ليے كوئى مسلمان شخص كسى كافرہ عورت كى شادى نہيں كريگا، چاہے وہ اس كى بيٹى ہو يا كوئى اور، اور نہ ہى كافر مسلمان كا اور نہ ہى مسلمان كسى كافر كا وارث بن سكتا ہے.

آئمہ اربعہ اور سلف و خلف ميں سے ان كے اصحاب كا يہى مسلك ہے، اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب عزيز ميں مومنوں اور كافروں كے مابين ولايت كو ختم كيا اور طرفين پر ايك دوسرے سے برات كرنا واجب كيا ہے، اور مومنوں كے مابين ولايت كو ثابت كيا ہے "

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 32 / 35 ).

ليكن مسلمان عورت كو چاہيے كہ وہ اپنے گھر والوں كو اس كے متعلق بتائے اور ان كى رضا حاصل كرے تا كہ يہ چيز اس كے والدين كے ليے بھى اسلام قبول كرنے اور ان كے دل كى تاليف كا سبب بن سكے.

يہاں سوال يہ پيدا ہوتا ہے كہ:

جس مسلمان عورت كا كوئى ولى مسلمان نہ ہو وہ كيا كرے ؟

اس كا جواب يہ ہے كہ:

اس مسلمان عورت كا نكاح وہ شخص كريگا جس كے پاس سلطہ اور مقام و مرتبہ ہو، مثلا اسلامك سنٹر كا چئرمين يا امام مسجد يا كوئى عالم دين، اور اگر اسے كوئى ايسا شخص نہ ملے تو پھر وہ كسى عادل مسلمان شخص كو اپنے معاملہ سونپ دے جو خود اس كا كسى شخص سے نكاح كر دے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جس عورت كا ولى نہ ہو اگر وہ عورت بستى ميں رہتى ہو يا كسى محلہ جہاں حاكم كا نائب ہو يعنى نمبردار تو وہ اس عورت كا نكاح كريگا...اور اگر ان ميں كوئى ايسا امام ہو جس كى وہ بات مانتے ہوں وہ امام اس عورت كى اجازت سے اس كا نكاح كر سكتا ہے "

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 32 / 35 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر عورت كا نہ تو كوئى ولى ہو اور نہ ہى حكمران ہو تو امام احمد سے روايت ہے كہ كوئى عادل مسلمان شخص اس عورت كى اجازت سے اس كا نكاح كريگا "

ديكھيں: المغنى ( 7 / 352 ).

اور امام جوينى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر عورت كا ولى حاضر نہ ہو اور وقت سلطان سے جاتا رہے تم ہم قطعى طور پر يہ جانتے ہيں كہ شريعت اسلاميہ ميں نكاح كے باب كو بند كرنا محال ہے، اور جس نے بھى اس سلسلہ ميں كوئى شك ظاہر كيا تو وہ شريعت كے بارہ ميں بصيرت پر نہيں، اور نكاح كا باب بند كرنے كى طرف جانا بالكل ايسے ہى ہے جيسے حرام كمانے كى طرف جانا ہے.

ديكھيں: الغياشى ( 388 ).

پھر امام جوينى نے يہ بيان كيا ہے كہ يہ نكاح علماء كرينگے.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

اگر تو عقد نكاح اس صورت ميں ہوا ہے اور آپ كا نكاح آپ كے ہاں اسلامك سينٹر كے چئرمين نے كيا، يا پھر كسى عادل مسلمان شخص نے كيا ہو يہ نكاح صحيح ہے.

ليكن اگر آپ نے اپنا نكاح خود كيا ہے تو اب آپ كو اپنے قريب ترين اسلامك سينٹر اور اسلامى مركز ميں جا كر اپنے نكاح كى تجديد كرانى چاہيے، اور يہ نكاح اسلام سينٹر كا صدر كرے يعنى وہ آپ كى شادى كرائے.

رہا آپ كے خاوند كا مسئلہ تو اس كو لازم نہيں كہ وہ اپنے گھر اور خاندان والوں كو اس نكاح اور شادى كے متعلق بتائے، كيونكہ يہ نكاح ميں خاوند كے ولى كى شرط نہيں ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب