جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

اگرگھر كا خرچہ بيوي برداشت كرتي ہو توكيا وراثت ميں اس كا حصہ مختلف ہوگا

تاریخ اشاعت : 10-12-2004

مشاہدات : 5727

سوال

سورۃ النساء كي آيت نمبر گيارہ ميں وراثت ميں سےعورت كےليے مرد سے نصف حصہ مقرر كيا ہے ، ميں يہ سمجھتا ہوں كہ عورت كومرد كے مقابلہ ميں نصف دينےكاحكم اس امر پر مبني ہے جوسورۃ النساء كي آيت نمبر ( 34 ) ميں ہے كہ مرد عورت كا سربراہ ہے ، ميرا سوال يہ ہےكہ :
جب خاندان ميں عورت ہي اساسي طورپر كمائي كرنےوالي ہو (يعني وہ ملازمت كرتي ہو) (نہ كہ مرد ) توپھر كيا حاصل ہوگا ؟ يا پھر خاوند اور بيوي دونوں ہي ملازمت كرتےاور روزي كماتے ہوں تو كيا پھر بھي ان پر يہي حكم لاگو ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

وراثت ميں عورت كومرد كےمقابلہ ميں نصف ملےگا چاہے عورت ملازمت كركے خرچہ برداشت كرتي ہو يا نہ كرتي ہو كيونكہ يہ حكم اللہ تعالي كا ہے فرمان باري تعالي ہے:

اللہ تعالي تمہيں تمہاري اولاد كےبارہ ميں وصيت كرتاہے كہ ايك مرد كےليےدو عورتوں كےبرابر ہے النساء ( 11 )

جب مرد اور عورت ايك ہي جانب سے وراثت ميں جمع ہوں تو مرد كو دوعورتوں كےبرابر حصہ ملےگا، اس سے كلالہ كے مسئلہ ميں اخوۃ لام ( ماں كي جانب سے بھائي ) مستثني ہيں جوكہ اللہ تعالي كےمندرجہ ذيل فرمان ميں بيان ہيں :

اور اگروہ مرد يا عورت كلالہ ہو ( يعني اس كا باپ بيٹا نہ ہو) اور اس كا ايك بھائي ياايك بہن ہو تو ان دونوں ميں سےہرايك كےليے چھٹا حصہ ہے ، اور اگر اس سےزيادہ ہوں توايك تہائي ميں سب شريك ہيں النساء ( 12 )

اور كلالہ كي صورت يہ ہےكہ : متوفي شخص كي نہ تواصل ہواور نہ ہي فرع يعني والد اور اولاد نہ ہو ، تواگر اس كےماں جائےبھائي ہوں تو مرد كوبھي عورت كےبرابر ہي ملےگا ، امام قرطبي رحمہ اللہ كہتےہيں :

( علماء كرام كا يہ اجماع ہے ، اور فرائض ميں اخوۃ لام كےعلاوہ كوئي ايسا مسئلہ نہيں جس ميں مرد اور عورت كوبرابر حصہ ملے) .

وراثت كي شان كي خاطر اللہ تعالي نے اس كي تقسيم خود كي اور اس ميں كسي مجتھد كےاجتھاد يا كسي تاويل كرنےوالے كي تاويل كےليے نہيں چھوڑا اور اسي ليے اللہ تعالي نےآيت ختم كرتےہوئےفرمايا :

يہ اللہ تعالي كي جانب سےفرض كردہ ہے ، يقينا اللہ تعالي علم اور حكمت والا ہے .

اور اللہ تعالي نے وراثت كےاحكام بيان كرنےكےبعد يہ فرمايا :

يہ اللہ تعالي كي حدود ہيں ،اور جوكوئي بھي اللہ تعالي اوراس كےرسول كي اطاعت وفرمانبرداري كرےگا اللہ تعالي اسے ايسي جنتوں ميں داخل كرےگا جس كےنيچے سے نہريں جاريں ہونگي اس ميں وہ ہميشہ ہميشہ رہيں گے، اوريہ عظيم كاميابي ہے ، اور جو كوئي بھي اللہ تعالي اور اس كے رسول كي نافرماني كرے اور اس كي حدود سےآگےتجاوز كرےگا اللہ تعالي اسے آگ ميں داخل كرےگا اس ميں وہ ہميشہ ہميشہ رہے گا اور اس كےليے ذلت والا عذاب ہے النساء ( 13 - 14 )

اس سےہميں يہ معلوم ہوتا ہے كہ ان احكام ميں تبديلي اور تغير كي كوئي گنجائش نہيں ہے ، اور نہ ہي اس پر كوئي اعتراض كيا جاسكتا ہے اس ليے كہ يہ احكام اللہ تعالي كي جانب سے نازل كردہ ہيں جوعلم اور حكمت والا ہے اورلوگوں پر ذرہ برابر بھي ظلم نہيں كرتا ، اور والدہ كا اپنےبچوں پر رحم كرنےسے بھي زيادہ رحم كرنے والا ہے .

اور بعض علماء كرام نے وراثت ميں مرد كوعورت پر فضيلت دينے كي حكمت مندرجہ ذيل فرمان باري تعالي استنباط كي ہے :

فرمان باري تعالي ہے:

مرد عورتوں پر حاكم ہيں اس وجہ سےكہ اللہ تعالي نےايك كودوسرے پر فضيلت دي ہے اور اس وجہ سے كہ مردوں نےاپنےمال خرچ كيےہيں النساء ( 34 )

علماء كا كہنا ہےكہ: جب مرد عورت اور اس كي اولاد اور اس كےملازموں پر خرچہ كرنے كا مكلف ہے اور عورت اس كي مكلف نہيں بلكہ اس سےيہ معاف ہے تواس طرح يہ مناسب ہوا كہ مرد كاحصہ عورت كےحصہ سےزيادہ ہو .

اور يہ حكمت بلاشك وشبہ ظاہر ہے علامہ شنقيطي رحمہ اللہ تعالي اپني تفسير " اضواء البيان " ميں كہتےہيں :

اس ليےكہ كسي دوسرےكےبھروسہ پرقائم شخص جس پر خرچ كيا جارہا ہو ہميشہ نقصان كي اميد ميں ہوتا ہے اور اسےقائم ركھنےوالا جواس پرمال خرچ كر رہا ہے ہر وقت زيادہ كي اميد ميں ہوتا ہے ، اور نقصان كي اميد والے پر زيادہ كي اميد والےكوترجيح دينے كي حكمت بالكل واضح اور ظاہر ہے كہ يہ اس كےنقصان كا ازالہ كرنے كےليے ہے .

ديكھيں اضواء البيان ( 3 / 308 ) .

اوريہ معلوم ہونا ضروري ہےكہ اسلام كي تمام اصطلاحات اور قوانين عورت كي عزت وتكريم اور اس كےساتھ انصاف ہي كرتي ہيں ، اور اسلام نے عورت كوايك مستقل مالي ذمہ بھي عطا كيا ہے ، جب كہ كچھ مدت قبل تك تويورپي عورت حق ملكيت سے محروم تھي !

اورسوال ميں جويہ پوچھا گيا ہے كہ: وہ عورت جوگھر كا خرچہ برداشت كرتي ہو يا پھر خرچہ كرنے ميں شريك ہو تواس كا جواب يہ ہے كہ :

عورت ايسا كرنے كي ذمہ دار نہيں اور اس سےخرچہ كرنےكامطالبہ نہيں كيا گيا ، اسےيہ حق حاصل ہے كہ ملازمت سےرك جائے ، يا پھر اپني كمائي كےمال سےگھريلو خرچہ نہ كرے بلكہ اپنےخاوند سےاپنے اور اپني اولاد كےليےخرچہ اوررہائش كا مطالبہ كرے ، اگرخاوند يہ حق ادا نہ كرے تو بيوي كوطلاق حاصل كرنے كا حق حاصل ہے ، اور اگروہ عورت خاوند پر خرچ كرنے اور گھريلوخرچہ اورمعيشت ميں شريك ہونے پر رضامند ہو تويہ اس كي جانب سےاحسان ہے جس پر اسےاجروثواب حاصل ہوگا، ليكن اس پر واجب نہيں اور اسي ليے وراثت ميں اس كےحصہ پر اثرانداز نہيں ہوتا .

يہاں ايك تنبيہ ضروري ہے كہ ہوسكتا ہے كہ بيوي اپنے والديا والدہ كےتركہ ميں سے نصف تركہ حاصل كيا ہو ، اس صورت ميں كہ جب اس كابھائي وارث نہ ہو ، اور ہوسكتا ہے يہ اپنےبھائي يا بہن كي وارث بني ہو اور اس كےساتھ اضافہ يہ كہ خاوند كي موت كےبعد اس كےتركہ سےبھي اسے وراثت ميں حصہ ملےگا.

اور ہوسكتا ہے كہ خاوند اس كي برعكس حالت ميں ہو، يعني وہ اپنے والد ياوالدہ يا اپنےبھائيوں كےتركہ سےبہت ہي كم مال كا وارث بنا ہو، يا پھر اسےوراثت ميں كچھ بھي حاصل نہ ہوا ہو .

اس تنبيہ سےہمارا يہ بيان كرنا مقصود ہے كہ اللہ تعالي كا فرمان : مرد كےليے دوعورتوں كي مثل ہے يہ فرمان ميت كي اولاد ميں سے لڑكےاورلڑكي كےمتعلق ہے ، اوريہ خاوند كا اپني بيوي كےساتھ ہونےپر منطبق نہيں ہوتا ، كيونكہ ہرايك كےليے مستقل جہت ہے جس كي طرف سےوہ وارث بنيں گے .

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد