جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

اجنبى كمپنيوں كے حصص خريدنے كا حكم

تاریخ اشاعت : 06-09-2006

مشاہدات : 6970

سوال

اجنبى كمپنيوں كے حصص كى خريدارى كا شرعى حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

1 - حصص كى تعريف:

السھم: يا حصہ، شراكت كے اجمالى مال ميں سے ايك محدود جزء كو حصہ يا السھم كہتے ہيں.

حصہ كى تعريف يہ كى جاتى ہے كہ:

اموال كى شراكت ميں حصہ دار بننے والے كا ايك حصہ يا وہ جزء ہے جس كى قيمت پر شراكت كا مجموعى راس المال تقسيم كيا جاتا ہے، جو اسمى قيمت كے اسٹام ميں درج كى گئى ہو، وہ اس طرح كہ حصص مجموعى طور پر شراكت كے راس المال كى جگہ ہوں، اور يہ حصص قيمت كے اعتبار سے متساوى ہوں.

اور اس بنا پر حصہ ايك مستقل وثيقہ بنے گا، جو حصہ دار كو ديا جائے گا، اور اس ميں شراكت كے بارہ ميں مخصوص معلومات ہونگى، مثلا: كمپنى يا شراكت كا نام، اور راس المال كى مقدار، اور اس كى جنس، اور اس كا مركزى آفس، اور حصے كا نمبر، اور اس كى قيمت ، اور حصہ دار كا نام، اگر حصہ نام والا ہو، يا پھر اس ميں يہ لكھا جائے گا كہ يہ حصہ اس كے ركھنے والے كے ليے ہے.

2 - اس كا حكم:

ابتدائى طور پر حصص كى خريد و فروخت ميں كوئى حرج نہيں، ليكن اسے مندرجہ ذيل امور سے اجتناب ہونا چاہيے:

1 - ايسى كمپنيوں كے حصوں كى خريد وفروخت جس ميں مشاركت كرنى حرام ہے كيونكہ وہ حرام اشياء كى فروخت كرتى ہے، يا پھر فساد اور باطل ميں تعاون كرتى ہو.

2 - سودى بنكوں كے حصص كى فروخت .

3 - سودى بنكوں ميں حصص كے اموال ركھنا، اور اس وجہ سے منافع سودى اموال سے مختلط ہو گا.

ا- مستقل فتوى كميٹى سے خيراتى اور زراعتى اعمال كرنے والى كمپنيوں اور بنكوں اور انشورنس اور پٹرول كمپنيوں كے متعلق سوال كيا گيا تو اس كا جواب تھا:

اگر تو يہ كمپنياں سودى كاروبار نہيں كرتيں تو انسان اس ميں حصہ دار بن سكتا ہے، اور اگر وہ سودى كاروبار كرتى ہوں تو پھر جائز نہيں ہے، يہ اس ليے كہ كتاب و سنت اور اجماع كے مطابق سودى كاروبا كرنا حرام ہے.

اور اسى طرح انسان كے ليے تجارتى انشورنس كمپنيوں ميں حصہ دار بننا بھى جائز نہيں؛ كيونكہ انشورنس كا معاہدہ دھوكہ فراڈ اور جھالت اور سود پر مشتمل ہوتا ہے، جو كہ شريعت اسلاميہ ميں حرام ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميہ ( 2 / 43 ).

ب ـ ذيل ميں كويتى فتوى كميٹى سے مالياتى ہاؤس كے تيسرے نقطہ كے بارہ ميں سوال و جواب بيان كيا جاتا ہے:

سوال: ؟

كيا اجنبى كمپنيوں كے حصص فروخت كرنا جائز ہيں؟ مثلا، جنرل موٹرز، فلپس، اور مرسڈيز كمپنى، يہ علم ميں ركھيں كہ يہ صنعتى كمپنياں ہيں، ليكن قرض اور فائدہ كےساتھ قرض سے پرہيز نہيں كرتيں؟

جواب:

صنعتى اور تجارتى يا زراعتى كمپنيوں كے حصص ميں مشاركت كى ابتدا مسلمان كے ليے شرعى ہونى چاہيے، كيونكہ اس ميں خسارہ بھى ہو سكتا ہے اور منافع بھى، اور يہ مشتركہ مضاربت اور شراكت كى قبيل سے ہے جس كى شريعت نے اس شرط پر تائيد كى ہے كہ يہ شراكت سودى لين دين سے دور ہوں، نہ تو سود ليں اور نہ ہى سود ديں، اور آپ جناب كى جانب سے فتوى طلب كرنے سے يہ سمجھ ميں آتا ہے كہ حصص ميں يہ ملحوظ ہے كہ يہ كمپنياں سود ليتى بھى ہيں اور ديتى بھى ہيں، تو اس بنا پر اس ميں حصہ دار بننا سودى كاروبار ميں حصہ دار بننا ہوا جو كہ شارع كى طرف سے منع كردہ ہے، واللہ تعالى اعلم .

ديكھيں: كتاب الفتاوى الشرعيۃ فى المسائل الاقتصاديۃ " الاجزاء بيت التمويل الكويتى" فتوى نمبر ( 532 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب