جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

شراب كشيد كرنے كى فيكٹرى ميں ملازمت كرنا

تاریخ اشاعت : 30-06-2006

مشاہدات : 7826

سوال

گيمبيا كا ايك سائل دريافت كرتا ہے كہ: شراب اور دوسرى نشہ آور اشياء فروخت كرنے والے مسلمان كا كيا حكم ہے؟
اور كيا ہم اسے مسلمان كہہ سكتے ہيں كہ نہيں؟
شراب كى فيكٹرى ميں ملازمت كرنے والے مسلمان كا حكم كيا ہے؟
اگر اسے كوئى اور كام نہيں ملتا تو كيا اس پر ملازمت چھوڑنى واجب ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شراب اور ہر قسم كى حرام اشياء فروخت كرنا بہت عظيم منكر اور برائى ميں شامل ہوتى ہے، اور اسى طرح شراب كى فيكٹريوں ميں ملازمت كرنا بھى حرام اور منكر و برے كاموں ميں سے ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كا تعاون كرتے رہا كرو، اور گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں ايك دوسرے كا تعاون مت كرو.

اور اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ شراب اور دوسرى نشہ آور اشيا اور سگرٹ و تمباكو فروخت كرنا گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں معاونت ہے، اور اسى طرح شراب كشيد كرنے كى فيكٹرى ميں ملازمت كرنا بھى گناہ و معصيت اور ظلم و زيادتى ميں تعاون ہے.

حالانكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان تو يہ ہے كہ:

اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا و قمار بازى، اور درگاہيں، اور فال كے تير پليد اور شيطانى عمل ہيں، لھذا ان سے بچ جاؤ، ہو سكتا ہے تم كامياب ہو جاؤ، شيطان تو يہى چاہتا ہے كہ شراب اور جوے كے متعلق تمہارے مابين عداوت و دشمنى اور بغض و عناد ڈال دے، اور تمہيں اللہ تعالى كے ذكر اور نماز سے روك دے، تو كيا تم باز آنے والے ہو.

اور صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شراب اور شراب نوشى كرنے والے، اور شراب پلانے والے، اور شراب كشيد كرنے والے، اور شراب كشيد كروانے والے، اور اسے اٹھانے والے، اور جس كى طرف اٹھا كر لے جائى جائے، اس پر، اور شراب فروخت كرنے والے اور شراب كے خريدار اور شراب كى قيمت كھانے والے پر لعنت فرمائى"

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں يہ بھى ثابت ہے كہ:

" اللہ تعالى كا وعدہ ہے كہ جو شخص شراب نوشى كرتے ہوئے فوت ہو اسے طينۃ الخبال ميں سے پلائے گا.

صحابہ كرام نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عرض كى اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم طينۃ الخبال كيا ہے؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جہنميوں كا نچوڑ، يا فرمايا: جہنميوں كا پسينہ"

اور شراب نوش كا حكم يہ ہے كہ: اہل سنت والجماعت كے ہاں شراب نوش كا حكم يہ ہے كہ يہ شخص گنہگار، اور نافرمان، اور فاسق و ناقص الايمان ہے، اور اگر توبہ كرنے سے قبل فوت ہو جائے تو روز قيامت يہ شخص اللہ تعالى كى مشيئت كے تحت ہو گا، اگر اللہ تعالى چاہے تو اسے عذاب دے اور اگر چاہے تو اسے معاف كردے.

كيونك فرمان بارى تعالى ہے:

يقينا اللہ تعالى اپنے ساتھ كيے گئے شرك كو معاف نہيں فرماتا، اور اس كے علاوہ جسے چاہے معاف فرما ديتا ہے.

يہ حكم تو اس وقت ہے جب كوئى شخص شراب كو حلال نہ سمجھتا ہو، ليكن اگر وہ شراب كو حلال قرار دے اور اسى پر فوت ہو جائے تو سب علماء كرام كے ہاں اس بنا پر وہ كافر ہو گا، نہ تو اسے غسل ديا جائے گا، اور نہ ہى اس كى نماز جنازہ ادا كى جائے گى؛ كيونكہ وہ اس نے اس بنا پر اللہ تعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى تكذيب كى ہے.

اور اسى طرح جو شخص زنا يا لواطت و لونڈے بازى، يا سود، وغيرہ دوسرى بالاتفاق حرام كردہ اشياء كو حلال جانے اس كا حكم بھى يہى ہے، مثلا: والدين كى نافرمانى، اور قطع تعلقى، اور ناحق كسى كو قتل كرنا.

ليكن جس نے حرمت كا علم ہونے كے باوجود يہ كام كيے يا ان ميں سے كوئى ايك كام كيا، اور اسے يہ بھى علم تھا كہ اس سے گنہگار ہو گا، تو يہ شخص كافر نہيں ہو گا.

بلكہ وہ شخص فاسق ہے، اور اگر توبہ كرنے سے قبل ہى فوت ہو جائے تو اس كا معاملہ اللہ كے سپرد، اور يہ آخرت ميں اللہ تعالى كى مشيئت كے تحت ہے چاہے تو اللہ تعالى معاف كردے اور چاہے عذاب دے، جيسا كہ شراب نوشى كرنے والے كے حكم ميں بيان كيا جا چكا ہے.

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے .

ماخذ: ديكھيں: كتاب: مجموع فتاوى و مقالات متنوعۃ لسماحۃ الشيخ العلامۃ عبد العزيز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ ( 4 / 433 )