جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

پھٹے ہوئے کپڑے میں نماز ادا کرنے کا حکم

سوال

اگر کوئی شخص نماز کیلئے پہنے ہوئے کپڑوں میں سوراخ پائے، اور پھر اسے یہ بھی معلوم ہو کہ وہ اسی کپڑے میں نماز پڑھتا رہا ہے، اور اس سوراخ میں سے محدود وقت کیلئے ستر بھی نظر آتا تھا، تو اب کیا وہ نمازیں دوبارہ پڑھے گا؟
اگر جواب : "ہاں" میں ہے اور اس شخص کو مدت کے بارے میں علم نہیں ہے کہ کب سے ایسا ہو رہا ہے تو پھر کتنی نمازوں کو دوبارہ پڑھے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اہل علم کا اس بارے میں اتفاق ہے کہ  ستر کو نماز میں ڈھانپ کر رکھنا نماز کے درست ہونے کیلئے  شرط ہے، اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ
ترجمہ: اے اولادِ آدم! کسی بھی مسجد [کی طرف نماز کیلئے آتے ہوئے] قابل زینت لباس پہنو۔[الأعراف : 31]

ستر پوش لباس کیلئے درج ذیل شرائط ہیں:
1- جلد کی رنگت واضح نہ کرے، اگر لباس میں سے جلد کی رنگ واضح ہو  تو اس سے ستر پوشی نہیں ہوگی۔

2-  ستر پوشی کیلئے استعمال ہونے والا کپڑا پاک ہو، چنانچہ  پلید کپڑے  سے نماز صحیح نہیں ہوگی، کیونکہ  دورانِ نماز نجاست کا لگا ہونا حرام ہے۔

اس کی دلیل فرمانِ باری تعالی ہے: وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو[المدثر : 4]

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شیر خوار بچے کو لایا گیا جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا، تو آپ نے بچے کو اپنی جھولی میں بٹھا لیا بچے نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جھولی میں پیشاب کر دیا، تو آپ نے پانی منگوا کر اپنے کپڑوں پر بہا دیا، یعنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کے پیشاب سے  اپنے کپڑوں کو جلدی سے دھو دیا، اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کپڑوں کو اگر نجاست لگ جائے تو اسے دھونا ضروری ہے۔

3- کپڑا جائز ہو، حرام نہ ہو، چاہے یہ حرمت کپڑے کی نوعیت کی وجہ سے ہو، مثلاً: ریشمی کپڑا، یا پھر کپڑے میں کسی عارضی وصف کی وجہ سے ہو، مثلاً: [مردوں کا ]کپڑا ٹخنوں سے نیچے ہو، یا پھر کپڑوں کے حصول کا طریقہ درست نہ ہو، مثلاً: غصب شدہ یا چوری شدہ کپڑا نہ ہو۔

نماز کے دوران ستر  کھل جانے  سے متعلق امام شافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مرد و خواتین ہر دو کم از کم اپنے ستر کو ڈھانپ کر نماز پڑھیں تو ان کی نماز درست ہوگی، چنانچہ مرد کا ستر   گھٹنے اور ناف کا درمیانی حصہ ہے، جبکہ عورت کے لئے ہتھیلی، چہرہ اور قدموں کی پشت کے علاوہ  مکمل جسم  ستر ہے، لہذا اگر  کسی مرد کا دورانِ نماز ناف سے گھٹنے کے درمیان کا کوئی حصہ کھل جائے ، یا کسی عورت  کے دورانِ نماز کم یا  زیادہ بال یا جسم کا کوئی حصہ کھل جائے،  ماسوائے چہرے اور ہاتھ و کلائی کے درمیانی جوڑ تک، یعنی اس سے زیادہ ظاہر نہ ہو، انہیں اپنے ستر کے کھل جانے کا علم ہو یا نہ ہو دونوں ہی اپنی نماز دہرائیں گے، تاہم ہوا کی وجہ سے یا ٹھوکر لگ کر گر جانے سے  ستر کھلے تو فوراً  اپنا ستر  ڈھانپ لے، اس میں کسی قسم کی تاخیر نہ کرے، چنانچہ اگر ستر کھلنے کے بعد اتنی دیر تاخیر کی  کہ اگر وہ جلدی سے اپنا ستر ڈھانپنا چاہتا تو ڈھانپ سکتا تھا لیکن اس نے نہیں ڈھانپا تو اپنی نماز دہرائے گا، اسی طرح عورت کا بھی یہی حکم ہے" انتہی
ماخوذ از: "کتاب الام" از شافعی، باب: "نماز میں کپڑے پہننے کی کیفیت کا بیان"

ابن قدامہ رحمہ اللہ اپنی کتاب "المغنی" میں  کہتے ہیں:
"فصل: اگر تھوڑا سا ستر کھل جائے تو  نماز باطل نہیں ہوگی، امام احمد نے اس بارے میں صراحت  سے اپنا موقف بیان کیا ہے، یہی موقف ابو حنیفہ کا ہے، جبکہ شافعی  کہتے ہیں: "اس کی نماز باطل ہو جائے گی، کیونکہ اس کا تعلق ستر کیساتھ ہے، اس لیے تھوڑا یا کم  عیاں ہونا سب برابر ہے، جیسے تھوڑے یا کم ستر کے دیکھنے کا حکم ایک ہی ہوتا ہے" ہمارے[حنبلی] فقہائے کرام کی دلیل ابو داود کی روایت ہے جسے انہوں نے اپنی سند  کیساتھ ایوب عن عمرو بن سلمہ جرمی  سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں: "مجھے میرے والد  اپنی قوم کے چند افراد کی معیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے، تو آپ نے انہیں نماز کا طریقہ سکھایا، اور انہیں فرمایا: (جو تم میں سے زیادہ قرآن پڑھنا جانتا ہو وہی تمہارا امام بنے) تو میں سب سے زیادہ قرآن مجید جانتا تھا، لہذا انہوں نے مجھے اپنا پیش امام بنا لیا، میں انکی جماعت کرواتا تھا، میرے تن پر ایک زرد رنگ کی چھوٹی سی چادر ہوتی تھی، جس وقت میں سجدہ کرتا تو میرا ستر کھل جاتا، تو ایک خاتون نے کہا: "اپنے امام کے ستر کو  ڈھانپو" پھر انہوں نے میرے لیے عمانی قمیص خریدی، تو مجھے اسلام قبول کرنے کے بعد اس قمیص کی سب سے زیادہ خوشی ہوئی تھی "اس روایت کو ابو داود نے روایت کیا ہے، جبکہ نسائی نے عاصم  احول کی سند کیساتھ عمرو بن سلمہ   سے بیان کیا ہے کہ: "میں [عمرو بن سلمہ]  پیوند لگی ہوئی چادر میں انکی امامت کرواتا  تھا، اور اس چادر میں سوراخ بھی تھے، چنانچہ جب میں سجدہ کرتا تو  میرا سرین عیاں  ہو جاتا تھا" یہ بات مشہور بھی ہوئی لیکن کسی نے اس کی تردید نہیں کی، اور ہمیں کوئی ایسی حدیث نہیں ملی جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یا صحابہ کرام نے عمرو بن سلمہ پر کوئی قدغن لگائی ہو؛ [نماز درست ہونے کی وجہ یہ بھی ہے کہ] عذر کی صورت میں جب زیادہ ستر عیاں ہونے پر بھی نماز ہو جاتی ہے، تو غیر عذر کی حالت میں کم ستر کھلنے اور زیادہ ستر کھلنے میں فرق کیا جانا چاہیے، مثلاً: چلتے ہوئے ستر کھل جائے، [یہ بھی وجہ ہے کہ] تھوڑا بہت ستر کھلنے سے بچاؤ مشکل ہوتا ہے، چنانچہ تھوڑے سے خون کی طرح یہاں [ستر کے معاملے میں] بھی رخصت رکھی گئی ہے، اس بات کے بعد زیادہ کی حد یہ ہے جو عرف کے مطابق دیکھنے میں زیادہ لگے، اس میں شرمگاہ اور دیگر  جسم کے اعضا میں کوئی فرق نہیں ہے، جبکہ تھوڑا  وہ ہوتا ہے جو عرف کے مطابق  دیکھنے میں تھوڑا ہو، تاہم شرمگاہ کے مخصوص حصے کا ظاہر ہوناستر کے دیگر اعضا کے کھلنے سے زیادہ ،مؤثر ہے، اس لیے اسے بھی نماز کیلئے مانع سمجھا جائے گا۔۔۔ [کم یا زیادہ کی مقدار] شریعت میں بیان نہیں کی گئی، اس لیے عرف عام کا اس کیلئے اعتبار کیا جائے گا، جیسے نماز میں کم یا زیادہ حرکت کے بارے میں عرف عام کا اعتبار کیا جاتا ہے"

چنانچہ اگر  کپڑے اس قدر پھٹے ہوئے تھے کہ عرف عام کے مطابق زیادہ ستر کافی دیر کیلئے عیاں ہوتا رہا ، یا  کپڑا ہی اتنا تنگ تھا کہ ڈھانپنا ممکن نہیں تھا تو پھر نماز صحیح نہیں ہے، کیونکہ  ستر پوشی نماز کی شرائط میں شامل ہے، اور جب  نماز کی کوئی شرط بغیر کسی عذر کے رہ جائے تو اس کی نماز درست نہیں ہوگی۔

لہذا آپ پر واجب ہے کہ آپ اپنی سابقہ تمام نمازیں جو اس لباس میں پڑھی ہیں وہ سب دوبارہ پڑھیں گے، اور اگر آپکو ان کی تعداد کے بارے میں  علم نہ ہو تو پھر جتنی تعداد کے بارے میں یقین ہو انہی کے بارے میں اعتماد کرتے ہوئے دوبارہ نمازیں پڑھیں، مثال کے طور پر:  اگر آپکو شک ہو کہ ایسے کپڑے میں پڑھی ہوئی نمازیں تین، چار یا پانچ تھیں تو اس صورت میں یقینی بات پانچ ہوگی، یعنی زیادہ سے زیادہ تعداد یقینی شمار کی جائے گی۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد