جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

نماز كے ليے جانے سے نماز ادا كر لينے تك ايك دوسرے ميں انگلياں ڈالنے كى كراہت

تاریخ اشاعت : 22-01-2007

مشاہدات : 6177

سوال

مسجد كے اندر انگليوں ميں انگلياں ڈالنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسجد كى طرف جاتے ہوئے سنت يہ ہے كہ انگليوں ميں انگلياں نہ ڈالے.

ابو ثمامہ الحناط بيان كرتے ہيں كہ كعب بن عجرہ رضى اللہ تعالى عنہ نے مجھے مسجد جاتے ہوئے ديكھا اور ميں نے اپنے دونوں ہاتھوں كى انگلياں ايك دوسرے ڈالى ہوئى تھيں، تو انہوں نے مجھے اس منع كيا، اور كہنے لگے:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب تم ميں سے كوئى وضوء كرے تو وہ اچھى طرح وضوء كرے اور پھر مسجد جانے كے نكلے تو اپنے ہاتھ كو ايك دوسرے ميں نہ ڈالے، كيونكہ وہ نماز ميں ہى ہے "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 562 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے اسے صحيح ابو داود ميں صحيح قرار ديا ہے.

يہ حديث نماز كے ليے مسجد كى طرف جاتے ہوئے انگليوں ميں انگلياں ڈالنے كى ممانعت ميں دليل ہے؛ كيونكہ مسجد كى طرف جانے والا شخص نمازى كے حكم ميں ہے.

خطابى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" انگليوں كو ايك دوسرے ميں ڈالنا تشبيك اليد ہے، بعض لوگ ايسا كام بطور كھيل اور عبث كرتے ہيں، اور بعض لوگ انگليوں كے چٹخاتے ہيں، اور بعض اوقات انسان اپنى انگليوں كو انگليوں ميں ڈال كر آرام كرنے كے ليے سرين كے بل بيٹھ جاتا ہے، اور ہو سكتا ہے اس سے اسے نيند بھى آجائے جو كہ وضوء ٹوٹنے كا سبب بن جائے.

تو اس ليے نماز كے ليے جانے والے شخص كو كہا گيا كہ اپنى انگليوں ميں انگلياں نہ ڈالے؛ كيونكہ جو كچھ ہم نے اوپر بيان كيا ہے وہ سب اشياء نماز ميں كرنا جائز نہيں، اور نہ ہى يہ نمازى كى حالت كے موافق ہے" انتہى.

ديكھيں: معالم السنن ( 1 / 295 ).

اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث ميں سجدہ سہو كے موضوع ميں ذواليدين رضى اللہ تعالى عنہ كا قصہ ان الفاظ كے ساتھ بيان ہوا ہے:

" چنانچہ نبى صلى اللہ عليہ وسلم مسجد ميں پڑى ايك لكڑى كے پاس كھڑے ہوئے اور اس پر ٹيك لگا لى گويا كہ وہ ناراض ہيں، اور اپنا داياں ہاتھ بائيں پر ركھ كر ہاتھوں كى انگلياں ايك دوسرے ميں ڈال ليں.... "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 482 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 573 ).

اس اور پہلے والى حديث ميں كوئى تعارض نہيں، كيونكہ يہ تشبيك تو اس وقت ہوئى جب نماز صلى اللہ عليہ وسلم كا خيال تھا كہ نماز مكمل ادا كى جا چكى ہے، اور وہ نماز سے فارغ ہوجانے والے شخص كے حكم ميں ہيں، تو اس طرح يہ نہى خاص نمازى اور ان افراد كے ليے ہو گى جو نماز كے ليے مسجد جا رہے ہيں، كيونكہ يہ فضول اور عبث كام اور عدم خشوع ميں شامل ہوتا ہے.

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى صحيح بخارى ميں كہتے ہيں:

" مسجد وغيرہ ميں انگليوں ميں انگلياں ڈالنے كے متعلق باب "

اور اس كے بعد انہوں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم احاديث بيان كى ہيں جس ميں نبى كريم صلى اللہ وسلم نے مسجد وغيرہ ميں انگليوں ميں انگلياں ڈالي تھيں، اور اس ميں مندرجہ بالا ذواليدين رضى اللہ تعالى عنہ والى حديث بھى شامل ہے.

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى ان نہى والى اور دوسرى احاديث كے مابين جمع كرتے ہوئے كہتے ہيں:

" اسماعيلى رحمہ اللہ تعالى نے جمع كرتے ہوئے كہا ہے كہ: نہى مقيد ہے كہ جب نماز ميں ہو يا نماز كے جارہا ہو تو انگليوں ميں انگلياں ڈالنا منع ہيں كيونكہ نماز كا انتظار كرنے والا شخص نمازى كے حكم ميں ہے..

پھر حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

جس روايت ميں يہ ہے كہ جب تك وہ مسجد ميں ہو ايسا كرنا ممنوع ہے، يہ روايت ضعيف ہے، جيسا كہ ہم بيان كر چكے ہيں. انتھى.

ديكھيں: فتح البارى ( 1 / 565 ).

ايك چيز پر تنبيہ كرنا بہتر معلوم ہوتا ہے كہ: بعض نمازى انگليوں كو چٹخانے كے فضول كام ميں مشغول رہتے ہيں، يہ فضول كام نمازى كے شايان شان نہيں، اور يہ اس كے عدم خشوع كى دليل ہے، كيونكہ اگر وہ دل كے ساتھ خشوع ميں نماز ادا كر رہا ہوتا ہو باقى اعضاء بھى خشوع اختيار كرتے اور حركت سے محفوظ رہتے.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كے غلام شعبہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كے ساتھ نماز ادا كى اور اپنى انگليوں كو چٹخايا، جب انہوں نے نماز مكمل كى تو مجھے كہنے لگے:

" تيرى ماں نہ ہو! كيا تم نماز كى حالت ميں ہى انگلياں چٹخا رہے تھے! "

اسے ابن ابى شيبہ ( 2 / 344 ) نے روايت كيا اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل ( 2 / 99 ) ميں حسن قرار ديا ہے.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

نماز كے ليے جانے والے شخص كے ليے انگليوں ميں انگلياں ڈالنا مكروہ اور منع ہيں، حتى كہ نماز سے فارغ ہو جائے، اور مسجد ميں بيٹھے ہوئے شخص كے ليے ايسا كرنا جائز ہے، ليكن اگر وہ نماز كے انتظار ميں بيٹھا ہو تو پھر جائز نہيں.

واللہ تعالى اعلم.

ديكھيں: احكام حضور المساجد للشيخ عبد اللہ بن صالح الفوزان ( 67 - 68 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب