جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

كيا خاوند كى ناراضگى سے روزے كے اجر ميں كمى ہو جاتى ہے ؟

تاریخ اشاعت : 16-10-2005

مشاہدات : 6053

سوال

كيا خاوند كو ناراض كرنے سے ميرے روزے كے اجروثواب ميں كمى ہو جائے گى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خاوند اور بيوى كے تعلقات ميں حسن معاشرت اور خوش اسلوبى اور محبت و پيار ہونا ضرورى ہے.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اس كى نشانيوں ميں سے يہ بھى ہے كہ اس نے تمہارے نفسوں سے ہى تمہارے جوڑے پيدا كيے اور تمہارے مابين پيار و محبت اور رحمت پيدا كر دى يقينا سوچ و بچار كرنے والى قوم كے ليے اس ميں نشانى ہے الروم ( 21)

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:

اور ان ( بيويوں ) كے ساتھ حسن معاشرت كا برتاؤ كرو النساء ( 19 )

اور ايك مقام پر اس طرح فرمايا:

اور عورتوں كے بھى ويسے ہى حق ہيں جيسے ان مردوں كے ہيں اچھائى كے ساتھ البقرۃ ( 228 ).

اس بنا پر خاوند اور بيوى دونوں كو چاہيے كہ وہ ايك دوسرے كو راضى ركھنے كى حرص ركھيں، اور ايسے افعال نہ كريں جس سے كوئى ايك ناراض ہو يا اسے تكليف پہنچے.

امام احمد رحمہ اللہ تعالى سے بيان كيا جاتا ہے كہ انہوں نے كہا: ام صالح ( ان كى بيوى ) بيس برس ميرے ساتھ رہى ميں اور اس نے كسى ايك كلمہ ميں بھى اختلاف نہيں كيا!

اللہ سبحانہ و تعالى نے خاوند اور بيوى كے ليے ہر وہ چيز مشروع كى ہے جس سے ان كے مابين محبت و الفت پيدا ہو اور اسے مضبوط كرے، اور اس كے خلاف ہر چيز منع فرمائى ہے.

اور اگر خاوند اور بيوى آپس كے تعلقات اور معاملات ميں اس شرعى قاعدہ كو جان ليں تو ان كى زندگى اس طرح صحيح اور مستقيم ہو جائے جس طرح اللہ تعالى چاہتا ہے، كہ وہ سكون اور محبت و مودت و مہربانى كے ساتھ زندگى بسر كريں.

خاوند اور بيوى دونوں شرعى طور پر ہر اس چيز كے مامور ہيں جو ان كے مابين محبت و مودت اور الفت پيدا كرے، اور اسے قوى بنائے، اور اس كے خلاف ہر چيز سے منع كيا گيا ہے.

حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مرد كو كثرت نماز اور روزہ سے منع كيا ہے اگر ايسا كرنے سے اس كے اہل و عيال كے حق ضائع ہوتے ہوں.

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:

" كيا مجھے يہ نہيں بتايا گيا كہ تو رات كو قيام كرتا اور دن كو روزہ ركھتا ہے ؟

تو ميں نے عرض كيا ميں ايسا ہى كرتا ہوں.

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر تم ايسا كرتے ہو تو تم نے اپنى آنكھ كو كمزور كر ديا، اور اپنے نفس كو تھكا ديا، يقينا تيرى جان كا تجھ پر حق ہے، اور تيرے اہل و عيال كا تجھ پر حق ہے، لہذا تم روزہ بھى ركھو نہ بھى ركھو، اور قيام بھى كيا كرو اور سويا بھى كرو"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1153 ).

هجمت عينك: يعنى زيادہ جاگنے كى وجہ سے اسے اندر دھنسا ديا يا كمزور كر ديا.

نفھت: يعنى اسے تھكا ديا.

دوم:

روزہ دار كو اخلاق حسنہ اختيار كرنے كا حكم ديا گيا ہے، حتى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے تو اسے يہ حكم ديا ہے كہ اگر كوئى اس سے لڑائى كرے يا گالى دے تو وہ اس كا جواب اسى طرح نہ دے بلكہ صبر كرے اور اپنے آپ كو روكے اور جواب ميں اسے كہے كہ ميں روزہ سےہوں.

بخارى اور مسلم رحمہما اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" روزہ ڈھال ہے، لہذا ( روزہ دار ) نہ تو گالى گلوچ كرے اور نہ ہى جہالت كے كام، اور اگر كوئى شخص اس سے لڑے يا اسے گالى نكالے تو وہ اسے دو بار يہ كہے: ميں روزے سے ہوں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1894 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1151 )

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

الرفث: گرى اور فحش كلامى كو كہتے ہيں.... اور الجھل رفث كے قريب ہى ہے، يہ حكمت اور صحيح قول اور فعل كے خلاف ہے.

يہ علم ميں ركھيں كہ گندى اور فحش كلام اور جہالت كى باتوں اور لڑائى جھگڑے اور آپس ميں گالى گلوچ كرنے كى نہى روزے دار كے ساتھ ہى خاص نہيں، بلكہ ہر ايك مسلمان اصلا نہى ميں اسى طرح ہے اور اسے منع كيا گيا ہے، ليكن روزے دار كو اس كى تاكيد كى گئى ہے. واللہ اعلم انتہى، اختصار كے ساتھ.

اور امام حاكم رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے اوراس كى سند كو صحيح قرار ديا ہے كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" كھانے پينے سے ركنے كا نام روزہ نہيں، بلكہ لغو اور گندى و فحش كلام سے ركنے كا نام روزہ ہے، اور اگر آپ كو كوئى شخص گالى دے، يا آپ كے ساتھ جاہلانہ كلام كرے تو آپ اسے كہيں: ميں روزے سے ہوں، ميں روزے سے ہوں " علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 5376 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

لغو باطل كلام كو كہتے ہيں، اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ باطل وہ كلام ہے جس ميں كوئى فائدہ نہ ہو.

امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص برى باتيں اور ان پر عمل اور جاہلانہ عمل ترك نہيں كرتا اللہ تعالى كو اس كى كوئى ضرورت نہيں كہ وہ شخص كھانا اور پينا ترك كرے"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6057 ).

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اس سے استدلال كيا گيا ہے كہ ان افعال سے روزے كے اجروثواب ميں كمى ہو جاتى ہے....

السبكى الكبير كا كہنا ہے:

حديث ميں ان اشياء كا ذكر ہميں دو چيزوں كى طرف متنبہ كرتا ہے:

پہلى:

عام حالت كے علاوہ روزے كى حالت ميں ان كى قباحت بہت زيادہ ہے.

دوسرى:

روزہ ان اشياء سے سليم ہونا چاہيے، اور يہ كہ روزے كا ان اشياء سے سليم ہونا اس كى صفت كمال ہے.

اور قوت كلام اس كى متقاضى ہے كہ روزہ كى بنا پر يہ اور بھى زيادہ قبيح ہے، تو اس كا تقاضا ہے كہ روزہ اس سے مكمل طور پر سلامت رہے، ان كا كہنا ہے كہ: اگر روزہ اس سے سليم نہيں رہتا تو اس ميں نقص ہو گا. انتہى

ماخوذ از فتح البارى كچھ كمى و بيشى كے ساتھ.

سوم:

خاوند كا اس كى بيوى پر بہت عظيم حق ہے، اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور مردوں كو ان عورتوں پر فضيلت حاصل ہے البقرۃ ( 228 ).

اور اگر تو خاوند كى ناراضگى كا سبب ہم بسترى سے انكار ہو تو يہ اور بھى زيادہ عظيم اور شديد گناہ ہے؛ كيونكہ ابن خزيمہ رحمہ اللہ تعالى نے صحيح ابن خزيمہ ميں عطاء بن دينار ھذلى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تين قسم كے لوگوں كى نماز قبول نہيں ہوتى، اور نہ ہى وہ آسمان كى طرف چڑھتى ہے، اور نہ ہى ان كے سروں سے تجاوز كرتى ہے، ان ميں سے ذكر كيا : اور وہ عورت جسے اس كا خاوند رات كو ( ہم بسترى كى ) دعوت دے تو وہ انكار كر دے"

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الترغيب و الترھيب حديث نمبر ( 485 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب مرد اپنى بيوى كو اپنے بستر پر آنے كى دعوت دے تو وہ انكار كر دے اور خاوند اس پر ناراض ہو كر رات بسر كرے تو صبح ہونے تك فرشتے اس عورت پر لعنت كرتے رہتے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3237 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1436 )

اور سوال نمبر ( 50063 ) كے جواب ميں يہ بيان كيا گيا ہے كہ معصيت و نافرمانى روزے كے اجروثواب ميں كمى كر ديتى ہے، اور اگر معاصى اور نافرمانياں زيادہ ہو جائيں تو روزے كا اجروثواب بالكل ہى ختم ہو سكتا ہے.

اور اگر خاوند اور بيوى ميں سے كوئى بھى دوسرے كے حقوق ميں كمى اور كوتاہى كرتا ہے يا اسے ناراض كرتا ہے تو يہ اس كے روزے ميں نقص كا سبب بنتا ہے.

يہ تو اس وقت ہے جب اس كى ناراضگى ناحق نہ ہو، كيونكہ بعض خاوند ناحق ہى ناراض ہو جاتے ہيں، اور بعض خاوند بيوى كى استقامت دين اور اصلاح دين كى بنا پر ناراض ہوتے ہيں، تو اس طرح اس كى ناراضگى باطل ہے.

اللہ تعالى سے سلامى و عافيت كے طلبگار ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب