جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

نفلى شروع ركھا اور پھر كھانے كى دعوت پر كھانا كھا ليا

تاریخ اشاعت : 26-06-2010

مشاہدات : 7205

سوال

اگر كسى شخص نے نفلى روزہ كى نيت كى اور كسى رشتہ دار كى زيارت كے ليے جانے پر اسے كھانے كى دعوت ملى اور اس نے كھانا كھا ليا تو كيا وہ گنہگار ہے يا وہ اس دن كى قضاء ميں روزہ ركھے كيونكہ اس نے روزے كى نيت كر ركھى تھى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب مسلمان نے روزے كى نيت كى اور روزہ شروع بھى كر ليا پھر وہ روزہ نہ ركھنا چاہے تو اسے روزہ كھولنے كا حق حاصل ہے، كيونكہ نفلى روزہ پورا كرنا واجب نہيں، ليكن اگر كوئى عذر پيش نہ آئے تو نفلى روزہ مكمل كرنا مستحب ہے، اور اگر روزہ كھولنے كا كوئى عذر يا اس ميں مصلحت ہو تو اس وقت روزہ كھولنے ميں كوئى حرج نہيں.

اس كى دليل ميں كئى ايك احاديث وارد ہيں:

1 - امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:

" ايك دن ميرے پاس رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تشريف لائے اور كہنے لگے: كيا تمہارے پاس كچھ ہے؟ تو ہم نے جواب نفى ميں ديا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: پھر ميں روزے سے ہوں، اور ايك دوسرے دن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہمارے پاس تشريف لائے تو ہم نے عرض كيا اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہميں حيسہ تحفہ ميں ملا ہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے مجھے دكھاؤ ميں نے تو صبح روزہ ركھا تھا، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے كھا ليا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1154 ).

حيسہ كھانے كى ايك معروف قسم ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس حديث ميں امام شافعى اور ان كے موافقين كے مذہب كى دليل كى واضح تصريح موجود ہے كہ نفلى روزے كو توڑنا اور دن كےدوران كھانا اور روزہ باطل كرنا جائز ہے، كيونكہ يہ نفلى روزہ ہے، اور اسے شروع كرنے ميں انسان كو اختيار ہے، اور اسى طرح اسے ركھنے ميں.

اس كے قائلين ميں صحابہ كرام كى ايك جماعت، اور امام احمد اور اسحاق اور دوسرے شامل ہيں، ليكن يہ سب اور ان كے ساتھ امام شافعى رحمہ اللہ اس روزے كو پورا كرنے كے استحباب پر متفق ہيں.

اور ابو حنيفہ اور مالك رحمہما اللہ تعالى كہتے ہيں:

اس كے ليے روزہ توڑنا جائز نہيں، اور وہ ايسا كرنے سے گنہگار ہو گا حسن بصرى اور مكحول اور نخعى رحمہ اللہ نے بھى يہى كہا ہے، اور انہوں نے بغير كسى عذر كے نفلى روزہ توڑنے والے پر قضاء واجب كى ہے.

ابن عبد البر كہتے ہيں: ان سب كا اس پر اجماع ہے كہ عذر كى بنا پر نفلى روزہ كھولنے والے پر قضاء نہيں ہے. واللہ اعلم. اھـ

2 - امام احمد رحمہ اللہ تعالى نے ام ھانئ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے ان كے پاس رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم تشريف لائے اور پانى طلب كيا اور اسے نوش فرمايا پھر وہ انہيں واپس دے ديا تو ام ھانئ نے پى ليا اور كہنے لگى: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں تو روزے سے تھى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نفلى روزہ ركھنے والا اپنے نفس كا امير ہے، اگر چاہے تو وہ روزہ ركھ لے اور اگر چاہے تو روزہ كھول لے"

مسند احمد حديث نمبر ( 26353 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے صحيح الجامع حديث نمبر ( 3854 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس حديث كے بعد تحفۃ الاحوذى ميں كہا گيا ہے:

اس باب كى احاديث اس پر دلالت كرتى ہيں كہ نفلى روزہ ركھنے والے شخص كے ليے روزہ كھولنا جائز ہے، خاص كر جب وہ كسى مسلمان كى طرف سے كھانے پر مدعو ہو. اھـ

3 - امام بيھقى نے ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں كہ:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے كھانا تيار كيا جب كھانا لگايا گيا تو ايك شخص كہنے لگا: ميں تو روزے سے ہوں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تيرے بھائى نے تيرى دعوت كى اور تيرے ليے تكلف كيا ہے، روزہ كھول لو اور اگر چاہو تو بعد ميں اس كى جگہ روزہ ركھ لينا "

حافظ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں كہ اس كى سند حسن ہے. اھـ

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب