جمعرات 27 جمادی اولی 1446 - 28 نومبر 2024
اردو

كيا قضاء كا روزہ توڑنے والے كو تين يوم كےروزے ركھنا ہونگے؟

سوال

ميں نےقضاء كا روزہ بغير كسي عذر كےكھول دياتھا مجھ پر كيا واجب آتا ہے؟
ميں نےبعض لوگوں كويہ كہتےہوئے سنا ہےكہ اس كےبدلے مجھےبعد ميں تين ايام كےروزے ركھنا ہونگے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

رمضان المبارك كےقضاء كےروزے واجب كردہ روزوں ميں سے ہيں انسان انہيں بغير كسي شرعي عذر كےنہيں توڑ سكتا، لھذا جب انسان قضاء كا روزہ ركھ لے تواس پر اسے مكمل كرنا لازم ہوگا .

آپ مزيد تفصيل ديكھنےكےليے سوال نمبر ( 39752 ) اور ( 39991 ) كے جوابات كو ضرور ديكھيں.

اور اگر رمضان كےقضاء كا روزہ كھول ديا تواس كےبدلے ايك دن كا روزہ ركھنا ہوگا، اور اگر اس نےيہ روزہ بغير كسي عذر كےتوڑا تو اسےقضاء كےساتھ ساتھ اللہ تعالي كےہاں اس معصيت و گناہ سے توبہ واستغفار بھي كرنا ہوگي.

اور آپ نےجويہ ذكر كيا ہے كہ اس كےبدلے تين يوم كےروزہ ركھنا ہونگے اس كي كوئي اصل اوردليل نہيں ملتي.

بلكہ بعض علماء كرام نے يہ كہا ہے كہ: اس كےذمہ دو دن كے روزے ہونگے ايك دن تو رمضان كا اور دوسرا قضاء كےروزہ كا.

ليكن صحيح يہي ہے كہ صرف ايك روزہ ہي ركھنا ہوگا .

ابن حزم رحمہ اللہ تعالي نے اپني كتاب " المحلي " ميں كہا ہےكہ:

جس نے رمضان كي قضاء ميں ركھا ہوا روزہ جان بوجھ كر عمدا كھول ديا تواس پر صرف ايك يوم كي قضاء ہي ہوگي، كيونكہ قضاء كا واجب شرعي واجب ہے جس كا اللہ تعالي نے حكم نہيں ديا، اور نبي صلي اللہ عليہ وسلم سے صحيح ثابت ہے كہ آپ صلي اللہ عليہ وسلم نے رمضان كےيوم كي قضاء كي ، لھذا كسي كےليے بھي يہ جائز نہيں كہ وہ بغير كسي نص اور اجماع كے اس سے زيادہ كرے . اھ

ديكھيں: المحلي لابن حزم ( 6 / 271 )

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب