سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

حج کے مہینوں میں عمرہ کی ادائيگي

سوال

کیا حج کے مہینوں میں عمرہ کی ادائيگي جائز ہے کیونکہ میں اسی برس حج نہيں کرنا چاہتا مثلا :
میں حج سے تقریبا نصف ماہ قبل مکہ مکرمہ گيا اورعمرہ ادا کرنے کے بعد واپس چلا گيا توکیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

علماء کرام میں بغیر کسی اختلاف کے حج کے مہینوں میں عمرہ کی ادائيگي جائز ہے ، اس میں کوئي فرق نہيں کہ اس برس حج کی نیت ہویا حج کی نیت نہ کی جائے ۔

نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاربار عمرہ کیا اوریہ سارے عمرے ذی القعدہ کے مہینہ میں ہی کیے جوکہ حج کے مہینوں میں سے ایک ہے ، حج کے مہینے یہ ہیں : شوال ، ذی القعدہ ، اورذی الحجہ ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف آخری عمرہ کےساتھ حج کیا جوحجۃ الوداع کہلاتا ہے ۔

امام بخاری اورمسلم رحمہما اللہ نے انس رضي اللہ تعالی سے بیان کیا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چارعمرے کیے اوریہ سارے عمرے ذی القعدہ کے مہینہ میں تھے صرف وہ عمرہ جوآپ نے حج کےساتھ کیا وہ نہيں ۔

ایک عمرہ حدیبیہ سے یا حدیبیہ کے زمانے میں ذی القعدہ کے مہینہ میں ، اورایک عمرہ اس کے اگلے برس وہ بھی ذی القعدہ میں ہی ، اورایک عمرہ جعرانہ سے جہاں آپ نے غزوہ حنین کی غنیمتیں تقسیم کیں وہ بھی ذي القعدہ میں ہی تھا اورایک عمرہ اپنے حج کے ساتھ ۔

دیکھیں : صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4148 ) اورصحیح مسلم حدیث نمبر ( 1253 ) ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے کہتے ہیں:

( انس اورابن عمررضی اللہ تعالی عنہما کی حدیث کا حاصل یہ ہے کہ دونوں کا چارعمروں میں اتفاق ہے اوران میں سے ایک چھ ہجری ذی القعدہ کے مہینہ میں حدیبیہ کےسال تھا اس میں انہیں روک دیا گيا تھا تووہ حلال ہوگئے اوران کے لیے یہ عمرہ شمار کرلیا گیا ۔

اوردوسرا عمرہ ذي القعدہ سات ھجری میں عمرہ قضاء تھا ، اورتیسرا عمرہ ذي القعدہ آٹھ ھجری میں جسے عام الفتح کہا جاتا ہے میں کیا ، اورچوتھا عمرہ آپ صلی اللہ وسلم نے اپنے حج کےساتھ کیا اوراس کا احرام ذی القعدہ میں تھا اورعمل ذی الحجہ میں کیا ) ،

اورایک جگہ پرکہتے ہیں :

( علماء کرام کہتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عمرہ ذی القعدہ میں اس مہینہ کی فضیلت اوراہل جاھلیت کی مخالفت کی بنا پرکیے تھے کیونکہ وہ اسے افجر الفجور شمار کرتے تھے ۔۔۔ لھذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینے اس لیے کیا تا کہ اس کے جواز کا بیان بلیغ ہو اوردورجاہلیت کی رسم کے باطل کرنے میں بھی زيادہ بالغ ہو ، واللہ اعلم ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب