جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

كتوں كى دوڑ اور خوبصورتى كا مقابلہ كرانا

100235

تاریخ اشاعت : 23-07-2008

مشاہدات : 4046

سوال

1 - خوبصورت كتوں كا مقابلہ كرانے كا حكم كيا ہے ؟
2 - كتا ہرن پر چھوڑنا اور كتے كى رفتار كا مقابلہ كرانے كى فيس لينے كا حكم كيا ہے ؟
3 - بغير كسى فيس كے ہرن پر كتے چھوڑنے اور تيز رفتار كتوں كا مقابلہ كرانے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

خوبصورت يا تيز رفتار كتوں كے مقابلوں ميں مال دينا جائز نہيں؛ كيونكہ يہ انعامى دوڑ كا مقابلہ صرف اسى ميں كروانا جائز ہے جس كا شريعت ميں ذكر پايا جاتا ہے مثلا اونٹ، گھوڑے يا تير اندازى كا مقابلہ، يا پھر وہ جو جھاد فى سبيل اللہ ميں ممد و معاون ثابت ہونے والى اشياء اس سے ملحق كى جاتى ہيں.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تير اندازى يا اونٹ يا گھوڑے كے علاوہ كسى ميں معاوضہ يا انعامى مقابلہ نہيں "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1700 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3585 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2574 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2878 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

السبق: عوض يا انعام كو كہتے ہيں.

النصل: تير.

الخف: اس سے مقصود اونٹ ہے.

الحافز: اس سے گھوڑا مراد ہے.

اور يہ مقابلہ بغير كسى فيس كے منعقد كرانا لہو و لعب اور بيكار كھيل كى ايك قسم ہے، اور پھر اس غرض سے كتے پالنا بھى حرام ہيں، كيونكہ جس كام كے ليےشريعت نے كتا ركھنے كى اجازت دى ہے اسكے علاوہ كسى اور غرض كے ليےكتا ركھنا حرام ہے، اور كتوں كى تربيت اور انہيں بنا سنوار كر ركھنا اور انہيں خوبصورت بنانا بےوقوفى اور فضول خرچى ہے.

بخارى اور مسلم نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو فرماتے ہوئے سنا:

" جس نے بھى شكار يا جانوروں كى ركھوالى كے علاوہ كوئى اور كتا ركھا تو اس كے اجر سے روزانہ دو قيراط كمى ہو جاتى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5481 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1574 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ انسان كے ليے كتا ركھنا حرام ہے، صرف انہيں امور كے ليے كتا ركھنا جائز ہے جس كى شريعت ميں اجازت دى گئى ہے، كيونكہ جس كسى نے بھى ـ شكار يا جانوروں يا كھيت كى ركھوالى كے علاوہ ـ كتا پالا اور ركھا اس كے اجروثواب ميں سے ايك قيراط كمى ہو جاتى ہے، اور جب اس كے اجر ميں سے ايك قيراط كمى ہوتى ہے تو وہ اس سے گنہگار بھى ہوگا، كيونكہ اجروثواب كا كم ہونا گناہ حاصل ہونے كے مترادف ہى ہے اور يہ دونوں حرمت پر دلالت كرتے ہيں.

اس مناسبت سے ميں ان مغرور لوگوں ميں سے ہر ايك كو نصيحت كرتا ہوں جو كفار كے اعمال كے دھوكہ ميں آكر كتے پال رہے ہيں، حالانكہ يہ خبيث و گندے اور نجس ہيں، اور ان كى نجاست بھى سب جانوروں اور حيوانات سے زيادہ بڑى اور غليظ ہے.

كيونكہ كتے كى نجاست اس وقت تك ختم نہيں ہوتى اور وہ برتن پاك صاف نہيں ہوتا جب تك اسے سات بار دھويا نہ جائے، جس ميں ايك بار مٹى سے مانجھنا بھى شامل ہے، حتى كہ خنزير جس كے متعلق قرآن مجيد ميں بيان كيا گيا ہے كہ وہ حرام اور نجس ہے، اس كى نجاست بھى اس حد تك نہيں پہنچتى.

لہذا كتا نجس اور خبيث ہے، ليكن شديد افسوس كے ساتھ ہم ديكھتے ہيں كہ كچھ لوگ ان كفار كى تقليد اور نقالى كرنے لگے ہيں جو گندى اور خبيث اشياء سے الفت و محبت كرتے ہيں، اور يہ مسلمان بھى بغير كسى ضرورت و حاجت كے كتے پالنے اور ركھنے لگے ہيں، اور ان كى صفائى اور دھلائى كرتے ہيں، حالانكہ وہ كتے كبھى بھى صاف نہيں ہو سكتے چاہے انہيں سمندر كے سارے پانى سے بھى صاف كيا جائے، كيونكہ ان كى نجاست عينى ہے يعنى وہ بعينہ نجس ہيں.

پھر يہ لوگ بہت سارے مال كا بھى خسارہ كرتے ہيں اور اپنا مال ان كتوں كى ديكھ بھال ميں ضائع كر رہے ہيں حالانكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مال ضائع كرنے سے منع فرمايا ہے.

اس ليے ميں دھوكہ ميں پڑے ہوئے ان لوگوں كو نصيحت كرتا ہوں كہ وہ اللہ كے سامنے توبہ و استغفار كرتے ہوئے اپنے گھروں سے كتے نكال باہر كريں، ليكن جو شخص شكار يا كھيت يا جانوروں كى ركھوالى كے ليے كتے كا محتاج ہو تو اس ميں كوئى حرج نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كى اجازت دى ہے " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 447 ).

دوم:

رہا كتوں كى ريس كا مقابلہ كروانا كہ كونسا كتا تيز رفتار ہے اس كے متعلق عرض ہے كہ اگر اس مقابلہ كا عوض ہو تو جائز نہيں، كيونكہ عوض اسى چيز ميں ہو سكتا ہے جس كى شريعت نے اجازت دى ہے، اور جسے اس كے ساتھ ملحق كيا گيا ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.

اور اس مقابلہ سے كتے كے مالك كو كوئى فائدہ ايسا نہيں جس ميں دين يا جہاد فى سبيل اللہ كا فائدہ ہوتا ہو.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ليكن كيا اس جانور كا مقابلہ اور دوڑ جائز ہے، دوسرے معنوں ميں يہ كہ دو آدمى اپنا اپنا كتا چھوڑيں اور اس پر ان كا مقابلہ كرائيں اور عوض ركھيں ؟

ظاہر يہى ہے كہ ايسا جائز نہيں؛ كيونكہ اس حال ميں دونوں كا كوئى فعل نہيں " انتہى.

شرح الممتع ( 10 / 96 ).

اور اگر وہ دوڑ بغير معاوضہ كے بھى ہو تو بھى جائز نہيں ہے.

خطيب شربينى كہتے ہيں:

" بغير كسى اختلاف كے كتوں كا مقابلہ كرانا جائز نہيں، اور نہ ہى مرغ لڑانے، اور بكروں كى ٹكڑوں كا مقابلہ كرانا، چاہے عوض ہو يا عوض كے بغير؛ كيونكہ ايسا كرنا بےوقوفى ہے " انتہى.

ديكھيں: مغنى المحتاج ( 6 / 168 ).

اس سے يہ واضح ہوا كہ كتوں كى دوڑ وغيرہ كا مقابلہ كرانا جائز نہيں، چاہے عوض كے بغير بھى ہو؛ كيونكہ يہ بے وقوفى ہے، اور اس ليے بھى كہ كتا ركھنا اور اس كى پرورش كرنا اس رخصت ميں شامل نہيں جس كى شريعت نے اجازت دى ہے، اور اس ليے بھى كہ اس ميں كفار اور گمراہ امتوں سے مشابہت ہوتى ہے.

اور مسلمان كو تو مال كى حفاظت كرنے اور اسےضائع نہ كرنے كا حكم ديا گيا ہے، تو كس طرح وہ كتے پال كر مال ضائع كرتا ہے كہ كتے كو خوبصورت يا زيادہ تيز رفتار بنائے حالانكہ اس كى نجاست غليظ ہے، اور وہ حقير بھى ہے.

اللہ تعالى نے جس كو بھى اپنے فضل و كرم سے مال ديكر نوازا ہے، اسے وہ مال اپنے اہل و عيال اور بچوں اور مسلمان تنگ دستوں پر خرچ كرنا چاہيے، اور اس دور ميں بہت سے مسلمان تنگ دست موجود ہيں، اور اسے وہ مال علمى اور دعوتى منصوبہ جات پر خرچ كرنا چاہيے جس ميں اسلام كى رفعت و بلندى اور مسلمانوں كا نفع ہے.

اور اسے يہ معلوم ہونا چاہيے كہ كل اسے اپنے مال كا اللہ تعالى كو جواب بھى دينا ہے كہ: اس نے وہ مال كہاں سے كمايا، اور كہاں خرچ كيا ؟

تو كيا اس كے لائق ہے كہ وہ كل قيامت اپنے پروردگار كو جواب دے:

اے اللہ ميں نے اپنا مال كتے پالنے اور انہيں بنا سنوار كر ركھنے اور انہيں تيز رفتار بنانے پر خرچ كيا.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ وہ مسلمانوں كى حالات كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب