جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

چچا كے بيٹے سے محبت كرتى ہے اور اس كا رشتہ بھى آيا ليكن وہ صرف نماز جمعہ ادا كرتا ہے

101686

تاریخ اشاعت : 09-04-2012

مشاہدات : 3791

سوال

اللہ سبحانہ و تعالى كا شكر ہے جس نے مجھے پردہ اور نقاب كرنے اور نماز كى ادائيگى كى توفيق بخشى، ميرا سوال ميرے چچا كے بيٹے كے متعلق ہے:
ميں اس كى محبت ميں گرفتار ہوں، اور اس نے ميرا رشتہ بھى طلب كيا ہے، ليكن ميرے والد صاحب نے رشتہ دينے سے انكار كر ديا حالانكہ وہ جانتے ہيں كہ ميں اس سے محبت كرتى ہوں اور وہ بھى مجھ سے محبت كرتا ہے، اس رشتہ سے انكار كا سبب يہ ہے كہ ميرے والد صاحب رشتہ داروں ميں شادى نہيں كرنا چاہتے، اور وہ لڑكا صرف نماز جمعہ كى ادائيگى كرتا ہے، اور سگرٹ اور حقہ نوشى بھى كرتا ہے اور كيفوں ميں جا كر بيٹھتا ہے.
اس كى مالى اور معاشرتى حالت بھى مجھ سے كمزور ہے كيونكہ ميں ڈاكٹر ہوں اور وہ ملازم ہے، اور مجھ دينى طور پر بھى كم ہے، اس ليے بھى كہ اس كے گھر والوں كے ميرے والد صاحب كے ساتھ اختلافات اور مشاكل ہيں، ليكن ہم ايك دوسرے كو پسند كرتے ہيں، ميں سمجھتى ہوں كہ اس معيار ميں ميرى سعادت تو نہيں ليكن سعادت اسى كے ساتھ ہے جسے ميں پسند كرتى اور محبت كرتى ہوں. ميرى رائے ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى اسے بھى ہدايت دےگا جس طرح اس نے مجھے ہدايت دى ہے، وہ بااخلاق نوجوان ہے، كيا مجھے حق حاصل ہے كہ ميں اپنے والد صاحب كے سامنے اصرار كروں كے ميں اسى شخص سے شادى كرونگى، اور اميد ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى شادى كے بعد ہدايت دےگا، اور ان سب فرق سے دستبردار ہو جاؤں اور حديث پرعمل ہو جائے كہ:
" ميں دو محبت كرنے والوں ميں نكاح كے طرح كچھ نہيں ديكھتا " ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر آپ كے چچا كا بيٹا صرف نماز جمعہ ہى ادا كرتا ہے اور سگرٹ نوشى اور حقہ پيتا ہے، اور كيفوں ميں جا كر بيٹھتا ہے تو آپ كو يہ رشتہ قبول نہيں كرنا چاہيے، بلكہ آپ كے ليے يہ رشتہ قبول كرنا جائز ہى نہيں؛ كيونكہ تارك نماز جو صرف نماز جمعہ ادا كرتا ہے اہل علم كے ہاں اس كے كفر ميں اختلاف پايا جاتا ہے.

بعض اہل علم اسے كافر شمار كرتے ہيں، اور بعض اہل علم اسے فاسق كہتے ہيں، بہر حال كم از كم وہ شخص مرتكب كبيرہ تو ضرور ہے.

ايك مومن عورت جو دين پر عمل كرنے والى ہے اور اللہ نے اسے ہدايت سےنوازا ہے، اور وہ نيك و صالح اور مستقيم عورتوں ميں شمار ہونے لگى ہے وہ كس طرح ايسے شخص سے شادى كر سكتى ہے جس كى حالت اوپر بيان ہوئى ہے ؟

رہى وہ محبت جس كى طرف آپ نے اشارہ كيا ہے تو اس كا كوئى انكار نہيں كہ دو محبت كرنے والوں كا بہتر علاج نكاح ہى ہے، ليكن يہ دين كے حساب پر نہيں ہو سكتا، كيونكہ محبت تو زائل ہو سكتى ہے اور ختم بھى، جس كے بعد بغص و عداوت اور تكيلف بھى جگہ پكڑ سكتى ہے، خاص كر جب كوئى شخص اللہ كے حقوق ميں كوتاہى كرنے والا ہو.

كسى غلط شخص كے ساتھ اس اميد سے شادى كرنا كہ مستقبل ميں اسے ہدايت مل سكتى ہے، يہ تو ايك دھوكہ ہے جس كا انجام اچھا نہيں، ہو سكتا ہے وہ صحيح ہو جائے اور يہ بھى ہو سكتا ہے وہ غلط راہ پر ہى رہے.

آپ يہ سوچيں كہ جو شخص نماز ادا نہيں كرتا اس كے ساتھ آپ كى زندگى كيسے بسر ہوگى، اور وہ آپ كو سگرٹ نوشى كے ساتھ دھويں كى تكليف بھى دےگا، اور اپنا وقت اپنے برے دوست اور سوسائٹى ميں كيفے ميں بيٹھ كر ضائع كريگا.

آپ جيسى عورت كے ليے يہ مخفى نہيں كہ ايك ہدايت يافتہ اور مستقيم راہ پر چلنے والے نمازى اور خير و بھلائى والے شخص كے ساتھ زندگى بسر كرنا اور ايك گمراہ شخص جو بے نماز ہو اور سگرٹ نوشى بھى كرے كے ساتھ زندگى گزارنے ميں كيا فرق ہے.

اگر اس نوجوان كو علم ہوگيا كہ اس كا رشتہ ترك نماز كى وجہ سے اور سگرٹ نوش ہونے كى بنا پر رد كيا گيا ہے ليكن اس نے پھر بھى اپنى حالت نہيں بدلى اور سيدھى راہ اختيار نہيں كى تو پھر شادى كے بعد اس كى ہدايت و استقامت كى اميد ركھنا فضول ہے، اور بعيد كى بات ہے.

اگرچہ اللہ كے علاوہ كسى كو معلوم نہيں كہ كل كيا ہو گا، ليكن لوگوں كى عام طبيعت كو ديكھتے ہوئے يہ كہا جا سكتا ہے كہ: اگر وہ آپ ميں حقيقى رغبت ركھتا ہوتا تو وہ اس كى سعى و كوشش ميں تبديل ہونے كى كوشش كرتا، اور حتى الوسع اپنے آپ كو اچھا بناتا اور تبديل كرتا.

اگر اس نے ايسا نہيں كيا تو قوى احتمال يہى ہے كہ وہ شادى كے بعد بھى اپنى اسى حالت پر قائم رہےگا.

اس ليے ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اس تك يہ رشتہ منظور نہ ہونے كى خبر پہنچا ديں اور اس كى علت يہ بتائيں كہ اس ميں جو دينى كوتاہى ہے اس كى وجہ سے رشتہ منظور نہيں كيا گيا، اور يہ رشتہ اس كے والد كو ہى منظور نہيں بلكہ حقيقت ميں ميرى طرف سے بھى منظور نہيں ہے، ليكن يہ اس وقت ہو گا جب آپ جذبات سے باہر نكليں گى اور شريعت پر پورى طرح عمل كرينگى.

اس ليے اگر تو وہ اپنے اندر تبديلى پيدا كرے اور بدل جائے اور سيدھى راہ اختيار كر لے اور كچھ عرصہ تك وہ اسى طرح صحيح رہے تا كہ اس كے ثابت قدم رہنے كا ثبوت مل جائے تو پھر اس صورت ميں آپ كے ليے يہ رشتہ منظور كرنا ممكن ہے، اور آپ اپنے والد كو يہ رشتہ قبول كرنے پر اصرار كر سكتى ہيں.

ليكن اگر وہ اپنى اسى حالت ميں رہتا ہے تو آپ اس كے بارہ ميں سوچنا چھوڑ ديں، يہ علم ميں ركھيں كہ اس كے علاوہ اور بہت سارے نيك و صالح مرد موجود ہيں، اور شادى سارى زندگى كے ليے ہوتى ہے كچھ وقت كے ليے نہيں يہ ايك بہت بڑى عمارت ہے جس كے ليے خاوند اور بيوى كى موافقت اور مناسبت ضرورى ہے، تا كہ دونوں كى زندگى صحيح بسر ہو سكے، اور اس ماحول ميں نيك و صالح اولاد كى پرورش ہو سكے، اور ايك عزت والا خاندان بنايا جائے.

انسان جو كچھ چاہتا ہے وہ حاصل كر كے سعادت حاصل نہيں ہو سكتى، ليكن حقيقى سعادت تو اللہ سبحانہ و تعالى كا جانب سے ہبہ ہوتى ہے، جو ايمان اور عمل صالح كے تابع ہوتى ہے.

جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

جس كسى نے بھى نيك و صالح عمل كيے چاہے وہ مرد ہو يا عورت اور وہ مومن ہو تو ہم اسے اچھى اور سعادت والى زندگى ديں گے، اور جو وہ عمل كرتے رہے اس كا انہيں اچھا بدلہ ديں گے النحل ( 97 ).

اس ليے ہم نے بہت سارے حالات ديكھيں ہيں كہ شادى سے قبل بہت زيادہ محبت و پيار تھا جو بالآخر ناكامى پر منتج ہوئے اور وہ شادى كامياب نہيں ہوئى، كيونكہ اس كى ابتدا اور اساس اللہ كى اطاعت پر نہ تھى.

اس مسئلہ كے بارہ ميں معاشرتى سرچ آپ سوال نمبر ( 84102 ) كے جواب ميں ديكھ سكتى ہيں.

دوم:

آپ كے ليے يہ بات مخفى نہيں كہ آپ كے چچا كا بيٹا آپ كے ليے باقى اجنبى مردوں كى طرح ايك اجنبى مرد كى حيثيت ركھتا ہے، اس ليے شادى سے قبل آپ اور اس كے مابين كسى بھى قسم كے تعلق كى كوئى مجال اور گنجائش نہيں، نہ تو آپ اس سے مصافحہ كر سكتى ہيں، اور نہ ہى خلوت، اور نہ ہى نرم لہجہ ميں لہك لہك كر بات چيت، اور نہ ہى اسے ديكھ سكتى ہيں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تم نرم لہجہ ميں بات مت كرو، كيونكہ جس كے دل ميں روگ ہو وہ برا خيال كرے، اور ہاں قاعدے كے مطابق كلام كرو الاحزاب ( 32 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب