بدھ 15 شوال 1445 - 24 اپریل 2024
اردو

باكسنگ كھيلنے كا حكم

10238

تاریخ اشاعت : 07-09-2007

مشاہدات : 7302

سوال

اللہ تعالى نے مجھ پر نعمت كى كہ ميں باكسر بن سكوں، اور مجھے پختہ اميد ہے اور ميں وثوق ركھتا ہوں كہ چند برسوں ميں دنيا ميں باكسنگ كا ہيرو بن جاؤنگا، جب سے ميں نے باكسنگ شروع كى ہے ميں كاميابى حاصل كر رہا ہوں، حالانكہ ميں ابھى اس ہنر كو حاصل كرنے كى ابتدا ميں ہى تھا، اور بالآخر ميں نے دين كا التزام كرنا شروع كر ديا ہے، ميرا سوال يہ ہے كہ:
كيا ميرے ليے باكسنگ كا ہنر اختيار كرنا جائز ہے يا نہيں ؟
ميرا خيال ہے كہ ميں باكسنگ ميں رہ كر اسلام اور مسلمانوں كو نفع دے سكتا ہوں، وہ اس طرح كہ ميں نواجوانوں كواسلام پر ابھارنے كے ليے كلام كيا كرونگا، اور خاص كر صحيح راہ ( اسلام ) كو اختيار كرنے كے متعلق، اور مال صدقہ كر كے .... الخ.
اور ميرى نيت يہ بھى ہے كہ ميں اپنے بدن كے ساتھ كسى دن جھاد كرونگا، اور باكسنگ ميں حاصل كردہ اپنے تجربہ كو بھى اس جھاد كى خدمت كے ليے استعمال كرونگا، گزارش ہے كہ آپ اپنے فتوى كى تائيد ميں دلائل بھى ذكر كريں.
نوٹ: ميں اپنے مسلمان بھائيوں كے مقابلہ ميں ہرگز نہيں آؤنگا، بلكہ صرف غير مسلموں كے مقابلہ ميں ہى آؤنگا.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

ہم سوال كرنے والے عزيز بھائى كى استقامت اور دين كا التزام كرنے پر اللہ كا شكر ادا كرتے ہيں، اور ہمارى دعا ہے كہ اللہ تعالى اس اس پر ثابت قدم ركھے، اسى طرح ہم اللہ كا اس پر بھى شكر ادا كرتے ہيں كہ اس نے آپ كو جسمانى اور بدنى قوت سے نوازا ہے، ان شاء اللہ اس ميں آپ اور مسلمانوں كے ليے عظيم فائدہ ہے، كيونكہ مسلمان ايك دوسرے كو تقويت ديتے ہيں.

اور پھر بدنى اور جسمانى قوت تو اللہ تعالى كى وہ نعمت ہے جو اللہ تعالى اپنے بندوں ميں سے جسے چاہے ادا كرتا ہے، اور جس سے چاہے روك ليتا ہے.

اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بھى قوى اور طاقتور مومن كو ضعيف اور كمزور مومن پر فضيلت دى ہے، جو كہ ايمانى اور جسمانى قوت پر مشتمل ہے.

ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" قوى اور طاقتور مومن ضعيف اور كمزور مومن سے اللہ تعالى كو زيادہ محبوب ہے، اور زيادہ بہتر ہے، اور ہر ايك ميں خير ہے، جو چيز تجھے نفع دے اس كى حرص ركھو، اور اللہ تعالى سے مدد چاہو، اور عاجز نہ ہو جاؤ، اور اگر تجھے كوئى ( نقصان ) پہنچ جائے تو يہ نہ كہو كہ اگر ميں اس اس طرح كر ليتا تو ايسا ہو جاتا، ليكن يہ كہو كہ اللہ تعالى نے تقدير ميں ہى ايسے لكھا تھا، اور اس نے جو چاہا كر ديا، كيونكہ اگر ( لو ) شيطانى عمل كا دروازہ كھول ديتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2664 ).

اور مومن شخص كا مباح اور جائز ورزش اور كھيل كھيلنا مفيد ہے كيونكہ يہ بدن كو قوى كرتى، اور اس كى صحت كو سلامت و محفوظ ركھتى ہے، جس كى بنا پر وہ عبادات اور جھاد فى سبيل اللہ كى ادائيگى بہتر طريقہ سے كر سكتا ہے.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صحت كى مدح ثنائى كى ہے بلكہ اسے تو مال پر مقدم كيا ہے.

معاذ بن عبد اللہ بن خبيب اپنے باپ سے اور وہ اپنے چچا سے بيان كرتے ہيں، وہ كہتے ہيں:

" ہم ايك مجلس ميں بيٹھے ہوئے تھے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تشريف لائے اور آپ كے سر پر پانى كے آثار تھے، تو ہم ميں سے ايك شخص كہنے لگا: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم آپ كو آج بڑا خوش ديكھ رہے ہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جى ہاں الحمد للہ اللہ كا شكر ہے، پھر لوگ غنا اور مالدارى كى باتيں كرنے لگے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: جو شخص تقوى اختيار كرتا ہے اس كے ليے غنا اور مالدارى ميں كوئى حرج نہيں، اور جو شخص تقوى اختيار كرتا ہے اس كے ليے غنى سے بھى بہتر صحت ہے، اور خوش رہنا اور اچھى حالت بہت بڑى نعمت ہے "

ابن ماجہ حديث نمبر ( 2141 ) مسند احمد حديث نمبر ( 22076 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ حديث نمبر ( 1741 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

مسلمان شخص كو چاہيے كہ ورزش اور كھيل ميں اس كا مقصد عبادات كى ادائيگى اور اللہ كے دين كى نصرت و مدد اور اس كى حرمت كے دفاع اور مسلمانوں كے دفاع پر تقويت كا حصول ہونا چاہيے.

تو اگر ايسا نہ ہو تو كم از كم يہ ہو كہ يہ چيز اس كے ليے دنيا ميں كمائى اور دشمن سے اس كا دفاع ہو، يا پھر وہ اپنا بدن اپنى معيشت كمانے اور حصول رزق ميں استعمال كرے، اور اپنے ہاتھ كى كمائے سے كھانے كا سبب ہو.

مقدام رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنے ہاتھ كى كمائى سے كھانا كھانے والے سے كبھى كوئى بہتر چيز نہيں جو كھائى جائے، اور بلا شبہ اللہ كے نبى داود عليہ السلام بھى اپنے ہاتھ كى كمائى كھاتے تھے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1966 ).

اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں كوئى ايك شخص كے ليے لكڑيوں كا ايندھن جمع كر كے اپنى پيٹھ پر اٹھانا اس سے بہتر ہے كہ وہ كسى كے سامنے دست سوال دراز كرے، وہ اسے دے يا نہ دے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1968 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1042 ).

ورزش اور كھيل كى يہ وجوہات تو مباح اور جائز ہيں، ليكن جو كھيليں اور ورزشيں ہم آج كل ديكھ رہے ہيں تو ان ميں سے اكثر اباحت سے نكل كر حرام كى حد ميں شامل ہو چكى ہيں، اور خاص كر باكسنگ تو سب سے برى كھيل ہے اس كى درج ذيل وجہيں ہيں:

1 - اس ميں مد مقابل كے چہرے پر مارا جاتا ہے جو كہ اعتداء ہے اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب تم ميں سے كوئى شخص اپنے ( مسلمان ) بھائى سے لڑے تو وہ اس كے چہرے سے اجتناب كرے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2560 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2612 ).

اور اس كھيل كى بنا ہى چہرے پر مكہ مارنے ميں ہے، جس ميں باكسر پورى طاقت سے مد مقابل كے چہرے پر مكہ رسيد كرتا ہے.

2 - اس كھيل ميں وقت كا ضياع ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے مسلمان پر جتنى بھى نعمتيں كى ہيں ان كے متعلق روز قيامت وہ سوال بھى كريگا، اور انسان بہت زيادہ ان نعمتوں كو ضائع كرتا ہے، جن ميں صحت اور فراغت شامل ہے.

اور روز قيامت اللہ تعالى نے مسلمان شخص سے سوال كرنا ہے ان ميں اس كى جوانى كے متعلق بھى سوال ہوگا كہ اس نے اپنى جوانى كہاں صرف كى، اور اس كى عمر كے متعلق پوچھا جائيگا كہ اس نے اپنى عمر كہاں فنا كى، تو جو شخص اپنى جوانى لوگوں سے لڑنے اور انہيں پچھاڑنے اور ان كے ساتھ باكسنگ كھيلنے ميں صرف كر دے تا كہ وہ كامياب ہو كر انعام كا مستحق ہو، يا پھر اسے عالمى باكسر كا ٹائٹل مل جائے تو وہ اللہ كو كيا جواب ديگا ؟.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اگر انسان عقل مند ہو تو وہ بغير كسى فائدہ كے اپنا مال ضائع نہيں كرتا؛ تو بالاولى وقت كو ضائع نہيں كرنا چاہيے؛ كيونكہ وقت تو مال سے بھى زيادہ قيمتى ہے؛ اور اس ليے كہ نوجوان اور غير نوجوان كا اس طرح كے كھيلوں ميں وقت ضائع كرنا جن ميں كوئى فائدہ نہيں ان امور ميں شامل ہوتا ہے جن پر افسوس و غم كيا جاتا ہے.

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 435 ).

3 - يہ كھيل موذى اور نقصان دہ ہے، بعض اوقات اتنا ضرر پہنچ سكتا ہے جو كبھى پورا نہيں ہو سكتا، اور اللہ سبحانہ و تعالى نے ہم پر اپنے بدن و جسم كو ضرر و نقصان دينا حرام كيا ہے، اور اسكى حفاظت كرنے كا حكم ديا ہے.

عبادہ بن صامت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فيصلہ كيا كہ:

" نہ تو كسى كو نقصان دو، اور نہ ہى خود اپنا نقصان كرو "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2340 ) مسند احمد حديث نمبر ( 21714 ) امام احمد اور حاكم نے اس حديث كو صحيح كہا ہے، اور ابن صلاح نے اسے حسن قرار ديا ہے.

ديكھيں: خلاصۃ البدر المنير تاليف ابن الملقن ( 2 / 438 ).

آپ يہ كھيل كھيلتے ہيں اس ليے آپ اس كا حكم بھى جانتے ہوں گے كتنے باكسر ايسے ہيں جنہيں اس كى بنا پر نقصان اٹھانا پڑا اور ان كے دماغ اور اعضاء ميں رعشہ پيدا ہو چكا ہے.

4 - اس ميں مال كا بھى ضياع ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ لوگوں كو ايسے كام ميں مشغول كرنا ہے جس ميں كوئى فائدہ اور جس كى كوئى ضرورت ہى نہيں، يہ مال اس طرح كے كھيل ميں جانے اور ضائع ہونے سے بہتر ہے كہ كسى خير و بھلائى كے كام ميں صرف ہو، كتنے ملين ڈالر ضائع ہو رہے ہيں جو نہ تو كسى بھوكے كو كھانا كھلانے ميں صرف ہوئے، اور نہ ہى كسى مسجد كى تعمير ميں، اور نہ ہى كوئى علمى درسگاہ قائم كرنے ميں اور نہ ہى كسى اور خير و بھلائى كے كام ميں.

5 - اس طرح كے كھيل ـ جس ميں باكسنگ بھى شامل ہے ـ ايسا جھوٹا نعرہ بن چكا ہے جو تعصب اور قوميت كى دعوت ديتا ہے، موجودہ صورت ميں ان كھيلوں نے لوگوں كے دلوں ميں تفريق پيدا كر كے ركھ دى ہے وہ آج كسى ٹيم كى كاميابى اور كسى كى شكست كى بنا پر ايك دوسرے سے محبت و بغض ركھنے لگے ہيں.

6 - اس ميں ستر پوشى نہيں ہوتى، بلكہ ستر ننگا كيا جاتا ہے، اگر آپ ايسا نہيں كرينگے تو آپ كا مد مقابل باكسر ايسا كرےگا، اور پھر مرد كا گھٹنے سے ليكر ناف تك ستر ہے، وہ اسے ننگا نہيں كر سكتا، جيسا كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اس كا حكم ديا ہے.

اور اسى طرح وہاں آنے والے مرد و عورت تماشائيوں سے بھى بے پردگى ظاہر ہوتى ہے، اور يہ ايسا امر جس سے آپ نہ تو روك سكتے ہيں، اور نہ ہى انكار كر سكتے ہيں.

آپ نے سوال ميں يہ كہا ہے كہ: " ميں مسلمانوں سے مقابلہ نہيں كرونگا "

تو كيا اس كھيل كے نگران آپ كو ايسا كرنے كى اجازت دينگے ؟

ميرے خيال ميں وہ ايسا كبھى نہيں كرينگے، اور آپ كو اس كا ہم سے بھى زيادہ علم ہے.

دوم:

پھر اس طرح كے مقابلہ دين كے ليے نہيں ركھے جاتے، اور نہ ہى اس اساس پر قائم ہيں، اور جب تماشائى مقابلہ ديكھتے ہيں تو وہ اس نيت سے نہيں ديكھتے كہ يہ اسلام اور كفر كے مابين مقابلہ ہے.

اور پھر يہ بھى ہے كہ آپ تو وہ مقابلہ اس ملك كى خاطر كر رہے ہيں جہاں آپ رہتے ہيں، يا پھر جس ملك نے آپ كو اپنى شہريت دے ركھى ہے، اور وہ آپ كو اس كى اجازت نہيں ديگا كہ آپ اسلام كے نام پر مقابلہ كريں.

پھر يہ بھى ہے كہ اگر آپ كا مد مقابل كافر بھى ہو تو وہ حربى نہ ہو بلكہ وہ اہل سلم ميں شامل ہوتا ہو، تو پھر آپ كس حق سے اس پر اپنا ہاتھ اٹھا رہے ہيں، جس نے صلح اور معاہدہ كر ركھا ہے.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

يہ كھيل ( باكسنگ ) ان حرام كھيلوں ميں شامل ہوتا ہے، جن كا نقصان زيادہ ہے اور خير كم.

سوم:

اور آپ كا يہ كہنا كہ:

" آپ اس ميں جھاد كى نيت كرتے ہيں جس دن بھى ہو "

اگر باكسنگ حرام نہ ہوتى تو آپ كى يہ كلام بہت اچھى قابل احترام تھى، آپ كے ليے ممكن ہے كہ آپ كسى اور ورزش كے ذريعہ اپنے جسم كو قوى اور مضبوط بنائيں جو حرام نہيں ہے.

مزيد معلومات كے حصول كے ليے سوال نمبر ( 10427 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات