جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

عورت كا ماموں اور اس كا چچا اس كا اور اس كى بيٹيوں كا محرم ہے

103878

تاریخ اشاعت : 31-01-2010

مشاہدات : 6675

سوال

كيا والدہ كے چچا اور ماموں كے سامنے پردہ كرنا جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

انسان كا ماموں اس كے ليے اور اس كى سارى اولاد كے ليے ماموں شمار ہوتا ہے، اور اسى طرح انسان كا چچا اس كى سارى اولاد كے ليے چچا شمار كيا جائيگا.

اس بنا پر عورت كے ليے كوئى حرج نہيں كہ وہ اپنى والدہ كے ماموں اور چچا كے سامنے پردہ نہ كرے اور اس كے ساتھ اسے مصافحہ كرنا بھى جائز ہے اور خلوت بھى جائز ہے، كيونكہ وہ اس كا محرم ہے اللہ سبحانہ و تعالى نے محرم عورتوں كا ذكر كرتے ہوئے فرمايا ہے:

 اور بھائى كى بيٹياں اور بہن كى بيٹياں . النساء ( 23 ).

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" بہنوں كى بيٹياں اور ان بيٹيوں كى بيٹياں حرام ہيں ؛ كيونكہ يہ بہن كى بيٹياں ہيں اور اسى طرح بھائى كى بيٹى كى بيٹياں بھى " انتہى

ديكھيں: المغنى ( 7 / 90 ).

اور مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال دريافت كيا گيا:

ميرى ايك بہن ہے اور اس كى اولاد ميں بيٹے اور بيٹياں بھى ہيں، اور اس اولاد كى شادى ہو چكى ہے اور ان كى بھى آگے اولاد ہے كيا ميرے ليے ان بيٹيوں كو چومنا جائز ہے، اس ليے كہ ميں ان كے باپ كا ماموں ہوں، اور اسى طرح ميرى بہن كى اولاد كى بھى شادى ہو چكى ہے اور ان كى بھى اولاد ہے تو كيا ميرے ليے ان بيٹيوں كو چومنا جائز ہے اس ليے كہ ميں ان كى ماں كا ماموں ہوں، اور كيا وہ مجھ سے پردہ نہيں كرينگى ؟

كميٹى كا جواب تھا:

آدمى اپنى بہن كى بيٹى كى بيٹيوں كا محرم ہوگا، اور اسى طرح اپنى بہن كے بيٹوں كى بيٹيوں كا بھى محرم ہے چاہے وہ اس سے بھى نيچى نسل ميں چلے جائيں، كيونكہ وہ ان كا ماموں ہے اور وہ اس سے پردہ نہيں كرينگى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 حرام كى گئيں ہيں تم پر تمہارى مائيں اور تمہارى بيٹياں اور تمہارى بہنيں، اور تمہارى پھوپھياں، اور تمہارى خالائيں اور بھائى كى بيٹياں اور بہن كى بيٹياں النساء ( 23 ).

اور يہ حكم قريبى بيٹيوں اور اس سے بھى نيچے درجہ تك جانے والى بيٹيوں كو شامل ہے " انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 17 / 284 ).

اور كميٹى كے علماء سے يہ بھى دريافت كيا گيا:

كيا عورت كے ليے اپنى ماں كے ماموں اور چچا كے سامنے آنا اور پردہ نہ كرنا اور اسے سلام كرنا جائز ہے، اور اسى طرح اپنے باپ كے ماموں اور چچا كے سامنے بھى اور اس كى حلت يا حرمت ميں فقھى دليل كيا ہے ؟

كميٹى كے علماء كا جواب تھا:

" عورت كے ليے اپنى والدہ كے ماموں اور چچا اور اپنے باپ كے ماموں اور چچا كے سامنے زينت والى وہ اشياء ظاہر كرنى جائز ہيں جو وہ اپنے محرم مردوں كے سامنے ظاہر كر سكتى ہے اس كى دو وجہيں ہيں:

پہلى وجہ:

اس ليے كہ يہ اس كے ليے محرم ہے، اور اس ميں ہر ايك كے ليے اس كے ساتھ نكاح كرنا حرام ہے؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:

 حرام كى گئيں ہيں تم پر تمہارى مائيں اور تمہارى بيٹياں اور تمہارى بہنيں، اور تمہارى پھوپھياں، اور تمہارى خالائيں اور بھائى كى بيٹياں اور بہن كى بيٹياں اور تمہارى وہ مائيں جنہوں نے تمہيں دودھ پلايا ہے اور تمہارى دودھ شريك بہنيں اور تمہارى ساس اور تمہارى پرورش ميں موجود لڑكياں جو تمہارى گود ميں ہيں تمہارى ان بيويوں سے جن سے تم دخول كر چكے ہو، ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ كيا ہو تو تم پر كوئى گناہ نہيں ا ور تمہارے صلبى سگے بيٹوں كى بيوياں اور تمہارا دو بہنوں كو ايك ہى نكاح ميں جمع كرنا، ہاں جوگزر چكا سو گزر چكا، يقينا اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے النساء ( 23 ).

اس كا بيان كچھ اس طرح ہے: بنات الاخ يعنى بھائى كى بيٹى سے مراد يہ ہے كہ بھائى كى بيٹى اور بيٹى كى بيٹى چاہے وہ اس سے جتنى بھى نچلے درجہ ميں چلى جائے يہ نہيں كہ صرف بھائى كى بيٹى تك محدود ہے، اور عورت كے والد كا چچا اس عورت كے دادا كا بھائى ہے، اور اجداد چاہے وہ اس سے بھى اوپر ہوں سب آباء يعنى باپ ميں شامل ہوتے ہيں، تو اس طرح يہ عورت بھائى كى بيٹيوں كى حرمت كے عموم ميں داخل ہو گى، اور عورت كى والدہ كا چچا اس عورت كے والد كا بھائى ہے تو اس طرح وہ بھائى كى بيٹيوں كے عموم ميں داخل ہو گى.

اور بہن كى بيٹيوں سے آيت ميں يہ مراد ہے كہ بہن كى بيٹياں چاہے وہ كتنى بھى نچلي نسل ميں ہوں يہ نہيں كہ صرف بہن كى صلب سے جو بيٹياں ہيں ان تك محدود ہو.

اور عورت كى ماں كا ماموں اس كى ماں كى ماں كا بھائى ہے، اور اسى طرح عورت كے باپ كا ماموں اس كے باپ كى ماں كا بھائى ہے، تو اس طرح يہ عورت بہن كى بيٹيوں كے عموم ميں داخل ہو گى.

اور جب يہ ثابت ہو گيا كہ جو سوال ميں مذكور ہيں وہ محرم ہيں تو اس كے ليے اپنے ہاتھ پاؤں اور چہرہ يعنى جو اشياء محرم مرد كے سامنے ظاہر كرنى جائز ہيں وہ ان كے سامنے بھى ظاہر كر سكتى ہے جن كا ذكر اللہ تعالى نے اس فرمان ميں كيا ہے:

 اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں سوائے اپنے خاوندوں كے يا اپنے والد كے يا اپنے سسر كے يا اپنے لڑكوں كے يا اپنے خاوند كے لڑكوں كے يا اپنے بھائيوں كے يا اپنے بھيتجوں كے يا اپنے بھانجوں كے يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے يا غلاموں كے يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں النور ( 31 ).

دوسرى وجہ:

اللہ سبحانہ و تعالى نے عورت كے ليے اپنے بھيتجوں اور بھانجوں كے سامنے چہرہ وغيرہ ننگا كرنا مباح كيا ہے چاہے وہ اس سے بھى نچلے درجہ تك ہوں وہ كچھ جو عام طور پر محرم مردوں باپ بيٹے اور بھائى كے سامنے ظاہر كيا جاتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

 اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں سوائے اپنے خاوندوں كے يا اپنے والد كے يا اپنے سسر كے يا اپنے لڑكوں كے يا اپنے خاوند كے لڑكوں كے يا اپنے بھائيوں كے يا اپنے بھيتجوں كے يا اپنے بھانجوں كے يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے يا غلاموں كے يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں النور ( 31 ).

اور عورت كى ماں كا ماموں اور اس كے والد كا ماموں اور عورت كى ماں كا چچا اور عورت كى ماں كا چچا چاہے وہ اس سے بھى اوپر كى نسل ميں ہوں وہ بھائى كے بيٹوں اور بہن كے بيٹوں كے معنى ميں داخل ہوتے ہيں چاہے وہ اس سے بھى نچلى سطع ميں ہوں، تو اس طرح زينت كے اظہار ميں ان سب كا حكم ايك ہو گا، اور رہا ان كا اس عورت كو سلام كرنے كا مسئلہ تو وہ صرف اس كے ساتھ مصافحہ كر كے كر سكتے ہيں " انتہى

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب