جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

نماز تراويح كى طوالت

سوال

ايك مسجد كے امام صاحب نماز تراويح ميں ہر ركعت ميں ايك صفحہ قرآت كرتے ہيں جو كہ پندرہ آيت كے قريب ہے، كچھ لوگ اعتراض كرتے ہيں كہ وہ لمبى قرآت كرتا ہے، اور كچھ كہتے ہيں كہ قرآت چھوٹى ہوتى ہے.
برائے مہربانى يہ بتائيں كہ نماز تراويح ميں سنت كيا ہے اور كيا نبى كريم صلى اللہ عليہ سے لمبى ہونے كى كوئى معروف حد پائى جاتى ہے يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

صحيح بخارى ميں حديث سے ثابت ہے كہ رمضان اور غير رمضان ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم رات كا قيام گيارہ ركعات فرمايا كرتے تھے، ليكن آپ صلى اللہ عليہ وسلم قرآت اور اركان ميں طوالت فرماتے، حتى كہ آپ نےايك بار تو ترتيل كے ساتھ ٹھر ٹھر كر پانچ سپاروں سے بھى زيادہ ايك ہى ركعت ميں تلاوت فرمائى.

اور يہ بھى ثابت ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم آدھى رات يا اس سے قبل يا كچھ بعد قيام كرتے، اور پھر طلوع فجر كے قريب تك جارى ركھتے، اس طرح آپ تقريبا پانچ گھنٹوں ميں تيرہ ركعات ادا فرمائے، اس كا معنى يہ ہوا كہ آپ قرآت او اركان لمبے لمبےكيا كرتے تھے.

اور يہ بھى ثابت ہے كہ جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے سب لوگوں كو ابى بن كعب رضى اللہ تعالى كى امام ميں جمع كر ديا تو وہ ايك ركعت ميں سورۃ البقرۃ كى تقريبا تيس آيات پڑھتے، يعنى چار يا پانچ صفحات، اس طرح وہ سورۃ البقرۃ كو آٹھ ركعات ميں ختم كرتے تھے، اور اگر وہ اسے بارہ ركعات ميں ختم كرتے تو وہ سمجھتے كہ نماز كو مختصر اور تخفيف كے ساتھ ادا كيا ہے.

نماز تراويح ميں سنت يہى ہے، بعض آئمہ كہتے ہيں كہ اگر نماز تراويح تخفيف كے ساتھ ادا كرے تو ركعات كى تعداد چاليس تك كر دے، اور اگر اقتصار پسند كرتا ہے تو پھر گيارہ يا تيرہ ركعت ادا كرے اور اس ميں قرآت زيادہ اور اركان لمبے لمبے كرے تا كہ سنت پر عمل ہو سكے، كيونكہ سنت گيارہ ركعات ہى ہيں.

مقصود يہ ہے كہ اتنے وقت ميں تراويح ادا كى جائے جب دل كو سكون و اطمنان حاصل ہو جو كہ ايك گھنٹے سے كم نہيں ہو سكتا، اور جو اسے طويل اور لمبا سمجھے تو اس نے منقول كى مخالفت كى اس كى بات كى طرف دھيان نہيں ديا جائيگا " انتہى

فضيلۃ الشيخ ابن جبرين.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب