جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

کیا کبیرہ گناہ نیک اعمال ضائع کر دیتے ہیں؟

107241

تاریخ اشاعت : 02-09-2018

مشاہدات : 13068

سوال

کیا اللہ تعالی زانیوں کے اعمال قبول فرمائے گا؟ یا انہیں دھول کی مانند اڑا دے گا؟ نیز کیا زنا سے عمل رائیگاں ہو جاتے ہیں؟ اگر کوئی زانی بار بار زنا کرے تو کیا اس کی اللہ کے ہاں نیکیاں باقی رہتی ہیں؟ یا اس کی نیکی اس وقت تک اللہ کے ہاں پیش نہیں کی جاتی جب تک وہ زنا سے توبہ نہ کر لے، اسی طرح کیا اللہ تعالی زانی شخص کے روزے، زکاۃ اور نمازیں قبول فرماتا ہے؟ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک حدیث میں فرمان ہے کہ:  (آسمان کے دروازے نصف رات میں کھولے جاتے ہیں اور ایک آواز لگانے والا صدا لگاتا ہے: کوئی ہے دعا کرنے والا اس کی دعا قبول کی جائے، کوئی ہے مانگنے والا کہ اسے دیا جائے، کوئی ہے پریشان حال  کہ اس کی مشکل کشائی کی جائے، تو کوئی بھی مسلمان دعا مانگے تو اللہ تعالی اس کی دعا قبول فرماتا ہے، ما سوائے زانی عورت کے جو جسم فروشی کرتی ہے اور بھتہ لینے والے کے)  اور سابقہ حدیث میں ہے ۔۔۔ تو اللہ تعالی انہیں اڑتی ہوئی دھول بنا دے گا۔۔۔ وہ جب تنہائی میں ہوتے ہیں تو اللہ تعالی کی حرمتوں کو پامال کر دیتے ہیں؟ مجھے آپ سے وضاحت کی امید ہے، نیز جو میں نے سمجھا ہے کیا یہ صحیح ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

تمام اہل سنت کے ہاں متفقہ طور پر قرآن کریم کے محکم اور مسلمہ اصولوں میں سے ہے کہ گناہوں سے مسلمان کے سارے نیک اعمال رائیگاں نہیں ہوتے، نیز کفر اور شرک کے علاوہ کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جو مسلمان کے نیک اعمال کو مکمل طور پر تباہ کر دے۔

اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ اور تم میں سے اگر کوئی اپنے دین سے برگشتہ ہو جائے پھر اس حالت میں مرے کہ وہ کافر ہی ہو تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں  ضائع ہوگئے۔ اور یہی لوگ اہل دوزخ ہیں جو اس میں ہمیشہ رہیں گے [البقرة: 217]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ "مجموع الفتاوى" (10/321-322) میں کہتے ہیں:

"صحابہ کرام اور اہل سنت  و الجماعت  کا موقف یہ ہے کہ کبیرہ گناہوں میں ملوث افراد جہنم سے نکلیں گے، اور ان کے بارے میں شفاعت بھی کی جائے گی، نیز کوئی  ایک کبیرہ  گناہ ساری نیکیاں ختم نہیں کرتا، لیکن اکثر اہل سنت کے ہاں کبیرہ گناہ اپنے حجم کے برابر نیکیاں ضائع کر سکتا ہے، اور مسلمان کی تمام نیکیاں کفر ہی ختم کرتا ہے، بالکل اسی طرح تمام گناہوں کو توبہ مٹا سکتی ہے، اسی طرح اگر کوئی کبیرہ گناہ کرنے والا شخص رضائے الہی کی غرض سے کوئی نیکی کرے تو اللہ تعالی اسے اس کی نیکی کا ثواب عطا فرماتا ہے، چاہے وہ اپنے کبیرہ گناہوں کی وجہ سے سزا کا مستحق ہو چکا ہو۔

قرآن مجید نے چور، زانی، اور مومنوں کے باہمی قتال  کے حکم میں فرق رکھا ہے، نیز کافروں پر حکم لگاتے ہوئے  ان احکام کے ناموں اور ان کی حقیقت میں بھی فرق رکھا ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنت متواترہ اور اجماع صحابہ  میں اس کی واضح دلیلیں ہیں۔

اہل سنت و الجماعت کا یہ موقف ہے کہ جس کام کو کرتے ہوئے بندے نے تقوی الہی اختیار کیا  تو اس کا وہ عمل اللہ کیلیے خالص ہے اور اللہ کے حکم کے مطابق ہے، لہذا جس کام کو سر انجام دیتے ہوئے تقوی اختیار تو وہ کام اس سے قبول کر لیا جائے گا، چاہے وہ کسی اور کام میں اللہ کا نا فرمان ہی کیوں نہ ہو، بالکل اسی طرح جس کام کو کرتے ہوئے تقوی اختیار نہیں کیا تو وہ کام مقبول نہیں ہو گا، چاہے وہ دیگر کاموں میں اطاعت گزار ہی کیوں نہ ہو" اختصار کے ساتھ اقتباس مکمل ہوا

سوال میں مذکور حدیث  ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، اس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:  (میں یقینی طور پر اپنی امت میں سے ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جو روزِ قیامت تہامہ کے پہاڑوں جیسی چمکدار نیکیاں لائیں گے، تو اللہ تعالی انہیں  اڑتی ہوئی دھول بنا دے گا۔) اس پر ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: "اللہ کے رسول! ہمیں ان کے بارے میں بتلائیں، ان کو ہمارے لیے واضح کریں؛ مبادا ہم ان میں شامل نہ ہو جائیں اور ہمیں علم ہی نہ ہو" تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیشک وہ تمہارے بھائی ہوں گے اور تمہاری ہی نسل سے ہوں گے، وہ بھی رات کے وقت قیام کرتے ہوں گے جیسے تم کرتے ہو، لیکن وہ ایسی قوم ہوں گے جب اللہ کے حرام کردہ کاموں کو تنہائی میں پاتے تھے تو کر گزرتے تھے)
اس حدیث کو  ابن ماجہ: (4245)  نے اسی طرح: الرویانی نے اپنی "المسند" (1/425)  میں ، ایسے ہی طبرانی نے "الأوسط" (5/46)  اور اسی طرح "معجم الصغير" (1/396) میں ، نیز یہ روایت "مسند الشاميين" (667)  اور ایسے ہی "مسند الفردوس" (7715)  میں بھی موجود ہے، اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ (505) میں صحیح کہا ہے۔

یہ حدیث ان دلائل میں سے ہےجن کی جانب ہم نے پہلے اشارہ کیا ہے کہ کچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی کچھ مقدار میں نیکیاں ضائع کر دیتے ہیں اور عمل صالح کا اجر رائیگاں کر دیتے ہیں۔

اس مسئلے کی مزید تفصیلات جاننے کیلیے آپ سوال نمبر: (81874) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سائل نے دوسری حدیث جو ذکر کی ہے وہ عثمان بن ابو العاص ثقفی رضی اللہ عنہ کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (آدھی رات کے وقت آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں تو ایک آواز لگانے والا آواز لگاتا ہے: ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے؟ ہے کوئی مانگنے والا کہ اسے دیا جائے، ہے کوئی مشکل میں پھنسا ہوا کہ اس کی مشکل کشائی کی جائے؟ تو کوئی بھی مسلمان اس وقت میں اللہ تعالی سے مانگتا ہے تو اللہ تعالی اس کی دعا کو لازمی قبول فرماتا ہے، سوائے زانی خاتون کے جو جسم فروشی کرتی ہو، یا بھتہ لینے والے)
اس حدیث کو  طبرانی نے "المعجم الكبير" (9/59) ، اور اسی طرح "المعجم الأوسط" (3/154) میں روایت کیا ہے، جبکہ ہیثمی رحمہ اللہ نے "مجمع الزوائد" (10/156)  میں کہا ہے کہ: اس حدیث کے تمام راوی صحیح کے راوی ہیں. اور البانی رحمہ اللہ نے "سلسلہ صحیحہ " (1073)  میں کہا ہے کہ: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

تو اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ زانی اور بھتہ خور کے اعمال ضائع ہو جاتے ہیں، بلکہ اس میں صحیح معنی کے مطابق یہ ذکر کیا گیا ہے کہ زنا پر اصرار کرنے والے زانی کی دعا قبول نہیں ہوتی؛ کیونکہ کبیرہ گناہ دعا کی قبولیت میں رکاوٹ بنتے ہیں، تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شخص گناہ پر مُصر ہو  تو اللہ تعالی اس کی دعا قبول کر لے حالانکہ وہ اپنے گناہ سے رجوع بھی نہیں کر رہا اور نہ ہی توبہ کر رہا ہے۔

و اللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب