منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

فوت شدہ روزوں كى قضاء كا طريقہ

سوال

اگر كسى شخص كے روزے رہ جائيں تو وہ ان كى قضاء كيسے كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر اس نے رمضان المبارك ميں كسى عذر يعنى سفر يا بيمارى يا عورت نے حيض اور نفاس كى وجہ سے روزے چھوڑے تو وہ ايام كى قضاء ميں اتنے ہى روزے ركھےگا جتنے اس نے چھوڑے تھے كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

تو جو كوئى بھى تم ميں سے بيمار ہو يا مسافر تو وہ دوسرے ايام ميں گنتى پورى كرے البقرۃ ( 184 ).

اور صحيح ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے حديث مروى ہے كہ جب ان سے حائضہ عورت كے متعلق دريافت كيا گيا كہ وہ روزوں كى قضاء تو كرتى ہے ليكن نماز كى قضاء كيوں نہيں كرتى ؟ تو عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے فرمايا:

" ہميں بھى يہ آتا تو ہميں روزوں كى قضاء كا حكم ديا جاتا تھا، ليكن ہميں نماز كى قضاء كا حكم نہيں ديا جاتا تھا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 321 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 335 ).

رمضان كے روزوں كى قضاء كا وقت دوسرا رمضان شروع ہونے تك ہے يعنى رمضان شروع ہونے سے قبل پہلے رمضان كے روزے ركھنا ہونگے، چاہے ايك ايك كر كے ركھے يا اكٹھے ركھ لے.

ليكن بغير كسى عذر كے دوسرے رمضان سے تاخير كرنى جائز نہيں ہوگى.

اور اگر وہ بغير كسى عذر كے عمدا اور جان بوجھ كر روزے ترك كرے تو اس كى دو حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

اگر تو اس نے رات كو ہى روزہ توڑنے اور نہ ركھنے كى نيت كر لى تو اس سے روزہ كى قضاء ميں روزہ ركھنا صحيح نہيں ہوگا كيونكہ روزہ كا وقت مقرر ہے، اس ليے جس نے بھى جان بوجھ كر ترك كر ديا اس كے ليے وقت نكلنے كے بعد وہ روزہ صحيح نہيں ہوگا؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس كسى نے بھى ايسا عمل كيا جس پر ہمارا حكم نہيں ہے تو وہ مردود ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2697 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1718 ).

دوسرى حالت:

اس نے رات روزہ ركھنے كى نيت تو كى اور روزہ ركھ بھى ليا ليكن پھر دن كے وقت بغير كسى عذر كے روزہ توڑ ديا، تو اس شخص پر اس دن كے روزے كى قضاء واجب ہوگى كيونكہ اس نے روزہ شروع كر ليا تھا اور اسے نذر كى طرح بنا ليا اس ليے اس كى قضاء واجب ہوگى.

اسى ليے دن كے وقت روزے كى حالت ميں بيوى سے جماع كرنے والے شخص كو اس دن كے روزے كى قضاء ميں روزہ ركھنے كا حكم ديتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم اس دن كے بدلے ايك روزہ ركھو "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1671 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

پھر يہ كہ اگر اس نے بغير كسى عذر كے جماع كے ساتھ روزہ توڑا تو اس پر قضاء كے ساتھ كفارہ بھى ہوگا؛ اس كا كفارہ اور احكام معلوم كرنے كے ليے آپ سوال نمبر ( 49614 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اور جس نے بغير كسى عذر كے روزہ توڑہ اسے اللہ كے ہاں توبہ و استغفار اور اپنے اس فعل پر ندامت كا اظہار كرنا ہوگا اور آئندہ ايسا نہ كرنے كا پختہ عزم كرے، اور اس كے ساتھ ساتھ كثرت سے اعمال صالحہ كرے يعنى نفلى روزے وغيرہ دوسرى عبادات بجا لائے، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور يقينا ميں ايسے شخص كو بہت زيادہ بخش دينے والا ہوں جو توبہ كرتا اور ايمان لانے كے ساتھ ساتھ نيك و صالح اعمال كرتا اور ہدايت اختيار كرتا ہے طہ ( 82 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب