جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

عربى النسل كينڈين بيوى نے بچى چھين كر طلاق كا مطالبہ كر ديا ہے اسے كيا نصحيت كى جائے ؟

125842

تاریخ اشاعت : 17-06-2009

مشاہدات : 7771

سوال

ميں مصرى ہوں اور ايك مصرى عورت سے شادى كى جس كے پاس كينڈا كى شہريت ہے، پھر ميں اس كے ساتھ كينڈا گيا ـ يہ علم ميں رہے كہ ميرے پاس امريكہ كى شہريت ہے ـ جب ميں كينڈا گيا تو مجھ پر انكشاف ہوا كہ بيوى كے خاندان ميں بہت سارى غير اسلامى روايات ہيں، حالانكہ ميں نے شادى سے قبل اس سے اس كے متعلق دريافت بھى كيا تھا مثلا: نماز وغيرہ.
ہمارے مابين اتفاق ہوا تھا كہ ميرا كينڈا ميں رہنے كى عدم رغبت يا وہاں نہ رہ سكنے كى صورت ميں واپس خليج چلا جاؤنگا، اور بيوى نے اس پر موافقت كى تھى، جب ميں وہاں گيا تو اس كے خاندان ميں حالات غير مطمئن ديكھے اور وہاں زندگى بسر كرنے ميں اپنے ليے خطرہ محسوس كيا، اور اسلامى امور ميں اس كے خاندان كى دخل اندازى ديكھى اور ديكھا كہ وہ ميرے اسلامى مظہر پر بھى اثرانداز ہو كر مجھے تبديل كرنے كى كوشش كرنے لگے كہ ايك ماڈرن مسلمان بن جاؤں جو پردہ وغيرہ نہ كيا جائے اور شراب كى محفل ميں بيٹھا جائے.
ميرى بيوى نے مجھے قسطوں (mortgage) پر گھر خريدنے پر راضى كر ليا، كچھ عرصہ بعد مجھے علم ہوا كہ يہ حرام ہے، اور بعض علماء نے مجبور شخص كے ليے اس كى اجازت دى ہے، لہذا ميں نے اسے فروخت كرنے كا عزم كر ليا، ليكن اس ليے نہيں كہ يہ حرام ہے بلكہ اس ليے كہ وہ راضى نہيں ہوئے، اور اسى اثناء ميں ميرى بيوى حاملہ ہو گئى تو ميں نے صبر كيا حتى كہ اس كے ہاں بچہ پيدا ہو گيا، اس كے بعد ميں نے اسے كہا چلو يہاں سے واپس خليج چلتے ہيں تو وہ بادل نخواستہ تيار ہو گئى، ليكن اس كے گھر والوں نے انكار كر ديا اور وہ اپنى ماں كى موافقت كے بغير خود كچھ بھى نہيں كر سكتى؛ كيونكہ اس كى ماں ہى گھر ميں سياہ و سفيد كى مالك ہے اور باپ كى نہيں چلتى، كئى ايك مشكلات كے بعد ميں نے كہا كہ چلو ميں اكيلا ہى واپس چلا جاتا ہوں ـ اور ان كى تجويز كى بنا پر ـ ميں نے كہا وقت فوقتا بيوى كو ملنے آ جايا كرونگا، اور جب ميں نے گھر فروخت كرنے كا كہا تو وہ پاگل ہو گئے اور گھر فروخت كرنے سے انكار كر ديا اور كہا كہ بيوى كو طلاق دے دو اور گھر فروخت كر دو، اور ميرى بيوى كو بھى ميرے خلاف كر ديا اور اسے ميرے گھر سے نكال كر لے گئے.
اسى دن اس كے بھائى نے ميرے ساتھ بات كى اور مجھ سے طلاق كا مطالبہ كيا تا كہ مجھے سفر سے روك دے، اور وكيل نے مجھے طلاق دينے كے ليے طلب كيا پھر ميرے مالى حالات كچھ سخت ہو گئے حتى كہ ميں نے اپنا گھر بھى چھوڑ ديا اور اپنى بيٹى كو بھى پرورش ميں نہ لينے پر مجبور كر ديا گيا... الخ.
ميں اب ايك اسلامى عربى ملك جانا چاہتا ہوں اور اپنى عفت و عصمت كو بچانے كے ليے شادى كرونگا ليكن اپنى بيٹى كو كينڈا ميں چھوڑوں جس كى عمر ابھى صرف ڈيڑھ برس ہے اور ميں مقروض بھى ہوں اور اپنى بچى كو اپنى پرورش ميں لينے پر قادر ہوں ليكن اس كے ليے مجھے وہاں كينڈا ميں ہى رہنا پڑيگا ليكن ميں اپنى اولاد كى پرورش اسلامى معاشرے ميں كرنا چاہتا ہوں كسى غير اسلامى معاشرے ميں نہيں برائے مہربانى كوئى نصيحت فرمائيں، اور كيا اگر ميں كينڈا ترك كر كے آ جاؤں اور كبھى اپنى بيٹى كو ملنے كے ليے جاؤں تو اللہ ميرى پكڑ كريگا اور كيا ميں اس حديث كے تحت تو نہيں آتا " آدمى كے ليے يہى كافى ہے كہ وہ اپنى پرورش اور عيالت دارى ميں رہنے والے كو ضائع كر دے " ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

كسى كافرہ ملك كى شہريت اختيار كرنى اور وہاں رہائش اختيار كرنا اور وہاں كى شہري تركھنے والى عورت سے شادى كرنے كا معنى يہى ہے كہ اس ميں شادى ناكام ہونے كا احتمال زيادہ ہے اور پھر غالبا بچوں كى تربيت ميں بھى ناكامى ہوتى ہے، خاص كر جب خاوند دين پر عمل كرنے والا ہو، اس كا كوئى بھى انكار نہيں كرتا كہ خاوند اور بيوى اور ان كے بچوں پر ماحول كا اثر ضرور ہوتا ہے، اور اس كا بھى كوئى انكار نہيں كر سكتا كہ ان كفار كے قوانين ايسے ہيں جو اس ملك كى شہريت حاصل كرنے والے سے شادى كرتا ہے اس كى اولاد پر اس ملك كا سلطہ اور طاقت ہوتى ہے.

اس ليے ہمارے بھائى سائل كو جو معاملہ پيش آيا ہے اس كے متعلق ہم يہى دعا كرتے ہيں كہ آپ كے معاملہ ميں اللہ تعالى آسانى پيدا فرمائے اور آپ كو بہتر عمل كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.

ہم آپ كو يہ مشورہ ديتے ہيں كہ:

آپ اس ملك ميں رہتے ہوئے اپنى بيوى كو اپنا مطالبہ تسليم كرنے پر راضى كرنے كى كوشش كريں كہ وہ آپ كے ساتھ اسلامى ملك ميں چلى جائے جہاں آپ دونوں اللہ كے احكام پر صحيح طرح عمل كر سكيں، اور اس غلط قسم كے معاشرے اور ماحول سے چھٹكارا حاصل كر سكيں، يہى وہ اعلى اور بہتر چيز ہے جس كو آپ كے ليے حاصل كرنا ممكن ہے، اور اسى ميں آپ كے خاندان اور بچوں كى حفاظت ہو گى.

ليكن اگر آپ اپنى بيوى كى اصلاح نہيں كر سكتے اور وہ اپنى گمراہى ميں رہنے پر مصر ہو اور آپ كے ساتھ جانے سے انكار كر دے اور اپنے خاندان ميں ہى رہنا پسند كرے تو پھر آپ ہر قسم كے اسباب سے اس كے خاندان والوں سے اپنى بچى حاصل كرنے كى كوشش كريں، ايسا كرنا آپ پر واجب اور ضرورى ہے، كيونكہ آپ اس بچى كے ذمہ دار ہيں، اور اگر اس ميں كوئى كوتاہى كرتے ہيں تو بلاشك آپ اس كے ضائع ہونے كے ذمہ دار ہونگے.

اور اگر آپ نے طلاق نہيں دى تو آپ اپنى بيوى كے ساتھ رابطہ ركھيں ہو سكتا ہے آپ كے غائب ہونے كى صورت ميں اس كى رائے تبديل كرنے كا باعث ثابت ہو اور وہ آپ كو اختيار كرنے كے ليے آپ سے مل جائے.

اور اگر طلاق ہو چكى ہے تو پھر آپ اپنى بيٹى سے رابطہ ركھيں اور اس كو حاصل كرنے سے نااميد مت ہوں، اور آپ ملك سے باہر رہتے ہوئے بھى وكيل كى مدد سے اس كو حاصل كرنے كى كوشش كر سكتے ہيں تا كہ وہ اس مقدمہ كى پيروى كرتے ہوئے اسے آپ كى پرورش ميں واپس لائے.

اور آپ كا بيٹى سے مسلسل رابطہ ركھنا بھى آپ كے ساتھ تعلق مضبوط كرنے كا باعث كريگا جب بڑى ہو گى تو وہ آپ سے رابطہ ركھےگى، اور ہو سكتا ہے وہ آپ كے ساتھ رہنے كے ليے آپ كو اختيار كرے، انسان كو علم نہيں كہ اس كے ليے كيا لكھا جا چكا ہے، اس كے ليے تو صرف اتنا ہے كہ وہ اس كے اسباب پيدا كرے اور ان اسباب پر عمل كرے.

اور ہم جس كى تاكيد كرنا چاہتے ہيں وہ يہ كہ آپ كے ليے اپنى بيٹى كواس حالت ميں جو آپ بيان كر رہے ہيں اس كى ماں كے پاس چھوڑنا جائز نہيں، اس كے ليے آپ جو بھى راسطہ اختيار كريں كر سكتے ہيں؛ اس كى ماں كے ساتھ حيلہ اور كوشش كريں كہ وہ اسے لے كر آپ كے ساتھ خليج آ جائے، يا پھر كچھ مدت كے ليے وہاں رہے، جب تك آپ كى بيٹى آپ كے ساتھ نہيں مل جاتى، اگر اس كى فرصت ہو چاہے حيلہ كر كے ہى.

اور آپ كے ليے كوئى مناسب بيوى تلاش كرنا ممكن ہے جو آپ كے حالات كو سمجھتى ہو اور آپ كى رضا كے ساتھ موافق ہو اور آپ كے دين اور ايمان سے موافقت ركھتى ہو.

اور پہلے مرحلہ ميں جس ميں ہميں اميد ہے كہ آپ اپنى بيٹى كو حاصل كر ليں گے اور آپ اس پر مطمئن ہونگے اس ميں ان شاء اللہ آپ كے نئے بيٹوں پر كوئى خطرہ نہيں ہو گا.

اور جب بھى آپ يہ محسوس كريں كہ ا ب ان كا مكمل طور پر كسى اسلامى ماحول ميں منتقل كرنا واجب و ضرورى ہے تو آپ ان كو لے كر اسلامى ملك ميں چلے جائيں، جہاں آپ اپنى اولاد پر مطمئن ہوں، اميد ہے اللہ تعالى آپ كى پہلى بيٹى كو آپ كے ساتھ جمع كريگا.

اور آپ اپنے پروردگار سے اس ميں معاونت طلب كريں اور جس ميں آپ كى بيٹى كے ليے آسانى ہو اللہ سے وہ خير و بھلائى مانگيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب