جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

اگر كوئى شخص نماز جمعہ كى تشھد ميں ملے تو كيا كرے ؟

سوال

اگر كوئى مسلمان شخص نماز جمعہ كى صرف تشھد ہى پائے تو اسے كيا كرنا چاہيے ؟
اور اگر كسى شخص كو نماز جمعہ كى ادائيگى سے روك ديا جائے يا پھر كسى ايسے سبب كى بنا پر وہ نماز جمعہ ادا نہ كر سكے جس كا باعث وہ خود نہيں، مثلا جس بس اور گاڑى پرسوار تھا وہ خراب ہو گئى تو كيا اس پر كوئى گناہ ہو گا ؟
كيا اسے جو اجروثواب اور دعاء كى قبوليت كے جو لحظات حاصل ہونا تھے وہ سب ضائع ہو جائيگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر امام كے ساتھ ايك ركعت ملے تو پھر نماز جمعہ حاصل ہو گى، اور ايك ركعت اس وقت ملے گى جب امام كے ساتھ ركوع سے قبل ملے اور ركوع حاصل كر لے، اور اگر وہ دوسرى ركعت ميں امام كے ساتھ ركوع سے قبل مل جائے تو اس نے نماز جمعہ پالى، تو اس وقت امام كے سلام پھيرنے كے بعد وہ اٹھ كر ايك ركعت ادا كر كے نماز جمعہ مكمل كرے گا.

ليكن اگر وہ امام كے ركوع سے اٹھنے كے بعد امام كے ساتھ ملتا ہے تو اس كى نماز جمعہ رہ جائيگى، اور اس طرح وہ ظہر كى نماز ادا كرے گا، اور امام كے سلام پھيرنے كے بعد اٹھ كر چار ركعت نماز ظہر ادا كرے گا نہ كہ نماز جمعہ، جمہور علماء كرام: امام مالك، امام شافعى، امام احمد رحمہم اللہ كا مسلك يہى ہے.

ديكھيں: المجموع للنووى ( 4 / 558 ).

ان كے دلائل يہ ہيں:

1 - نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جس نے نماز كى ايك ركعت پالى اس نے نماز پالى "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 580 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 607 ).

2 - نسائى رحمہ اللہ نے عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے نماز جمعہ يا دوسرى نماز كى ايك ركعت پالى تو وہ اس كے ساتھ دوسرى ركعات بھى ادا كر تو اس كى نماز مكمل ہو گئى "

علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے الارواء ( 622 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور اگر انسان كسى ايسے عذر كے باعث نماز ميں شامل نہ ہو سكے جس كا باعث وہ خود نہيں بلكہ وہ غير ارادى طور پر ہوا ہو مثلا جيسا سائل نے ذكر كيا كہ گاڑى خراب ہو جائے يا كوئى اور عذر مثلا نيند يا پھر بھول جانا، تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور نہ ہى اس پركوئى گناہ ہے، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

تم سے جو بھول چوك ہو جائے اس ميں تم پر كوئى حرج نہيں، ليكن گناہ اس ميں ہے ہے جو تمہارے دل كے ارادے سے ہو الاحزاب ( 5 ).

اور اس طرح كا شخص جان بوجھ كر عمدا نماز ضائع نہيں كرتا.

اور اس ليے بھى كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" يقينا اللہ تعالى نے ميرى امت سے خطاء، نسيان، اور جس پر انہيں مجبور كر ديا گيا ہو معاف كر ديا ہے "

اسے ابن ماجہ نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ارواء الغليل ( 82 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اگر وہ اس حالت ميں نماز كى ادائيگى كا عزم ركھتا كہ اگر عذر نہ ہوتا تو وہ ضرور نماز ادا كرتا، تو اسے مكمل اجروثواب حاصل ہوگا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" اعمال كا دارومدار نيتوں پر ہے، اور ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس نے نيت كى ہو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 1 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1907 ).

اور اس ليے بھى كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ غزوہ تبوك سے واپس آرہے تھے تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے صحابہ كرام كو فرمايا تھا:

" بلا شبہ مدينہ ميں كچھ لوگ ايسے بھى ہيں جو مدينہ ميں رہنے كے باوجود تمہارے ساتھ ہرگھاٹى اور وادى اور سفر ميں تمہارے ساتھ رہے، اور اجروثواب ميں شريك ہوئے، انہيں بيمارى نے روك ليا تھا "

صحيح مسلح حديث نمبر ( 1911 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد