جمعرات 16 شوال 1445 - 25 اپریل 2024
اردو

اگر ارد گرد کے لوگ اجتماعی انداز میں تلبیہ کہہ رہے ہوں تو کیا خاموش ہو جائے؟

126707

تاریخ اشاعت : 20-08-2016

مشاہدات : 3017

سوال

سوال: میرا سوال اجتماعی تلبیہ کے بارے میں ہے؛ میں نے آپ کا فتوی پڑھا تھا اور اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا قول بھی ، اب مجھے یہ جاننا ہے کہ:
بس میں سوار شخص کیا کرے اگر تمام مسافروں کیلیے الگ الگ تلبیہ کہنا ممکن نہ ہو؛ کیونکہ الگ الگ بھی تلبیہ کہنا شروع کریں تو آخر کار ان کی آوازیں مل جاتی ہیں۔
صحابہ کرام تو ایک سواری پر نہیں تھے، اور ایسا ممکن ہے کہ سب دور دور ہوں، تو ایک گاڑی میں سوار ہونے کی وجہ سے حجاج کو ایک آواز میں اجتماعی تلبیہ کہنے کی اجازت ہے؟
خصوصاً جہاں فتنے کا خدشہ ہو؛ کیونکہ اکثریت بیک آواز میں تلبیہ پڑھنے کو جائز سمجھتے ہیں، نیز یہ بھی سوال ہے کہ: اگر کوئی شخص اکیلے تلبیہ نہ کہہ سکے تو کیا خاموش ہو جائے یا ان کے ساتھ مل کر تلبیہ کہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اجتماعی تلبیہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام کسی سے بھی ثابت نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ اہل علم کی بہت بڑی جماعت نے  اسے واضح لفظوں میں بدعت قرار دیا ہے۔

چنانچہ "فتاوى اللجنة الدائمة" (11/358) میں ہے کہ:
"حجاج کیلیے اجتماعی تلبیہ کہنے کا کیا حکم ہے؟ کہ ایک تلبیہ کہے اور پھر دوسرے اس کے پیچھے تلبیہ کہیں۔
جواب: ایسا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین کسی سے بھی ایسا کرنا ثابت نہیں ہے؛ بلکہ یہ بدعت ہے۔

عبد اللہ بن قعود۔۔۔ عبد الرزاق عفیفی۔۔۔ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز" انتہی

یہ اس صورت میں ہے جب کوئی قصداً اجتماعی  تلبیہ کہے ؛ لیکن اگر کوئی شخص  تنہا تلبیہ کہنا شروع کرے اور آس پاس کے حجاج کی آواز بھی غیر ارادی طور پر اس کی تلبیہ کے ساتھ مل جائے تو اس پر کچھ نہیں ہے۔

اس لیے عام طور پر ایسا ہو جاتا ہے کہ اگر کچھ لوگ اکٹھے طواف کر رہے ہوں تو ان کی آوازیں کئی بار غیر ارادی طور پر مل جاتی ہیں۔

لہذا اگر آپ کے ارد گرد لوگ تلبیہ کہہ رہے ہوں تو آپ خاموش مت ہوں، بلکہ تلبیہ کہتے ہوئے اپنی آواز بلند کریں۔

لیکن اگر آپ کے الگ سے تلبیہ کہنے کے متعلق کسی کو علم ہو اور اس کے نتیجے میں کسی خرابی کا خدشہ ہو تو آپ قدرے آہستہ آواز میں تلبیہ کہہ لیں، لیکن خاموش مت ہوں؛ کیونکہ تلبیہ مفید عبادات میں سے ہے۔

چنانچہ نسائی: (2753) ترمذی: (829) ابو داود: (1814) اور ابن ماجہ: (2923) میں سائب بن خلاد رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میرے پاس جبریل آئے اور انہوں نے مجھے کہا: محمد [صلی اللہ علیہ وسلم]! اپنے صحابہ کرام کو حکم دیں کہ تلبیہ کہتے ہوئے آواز بلند کریں)
اس حدیث کو البانی نے "صحیح سنن نسائی" میں صحیح قرار دیا ہے۔

ابن ماجہ میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ: (تلبیہ کہتے ہوئے اپنی آواز بلند کریں؛ کیونکہ  تلبیہ حج کے شعار میں شامل ہے)

ترمذی: (827) اور ابن ماجہ: (2896) میں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: "کون سا حج افضل ہے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جس میں الْعَجُّ اور الثَّجُّ  ہو) اس حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔

وکیع رحمہ اللہ اس حدیث کا معنی ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
" الْعَجُّ : یعنی بلند آواز سے تلبیہ کہنا ۔ اور الثَّجُّ   : یعنی: جس حج میں اونٹ کو نحر کیا جائے"

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب