جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

ايك شخص نے كسى كے پاس رقم امانت ركھى اور واپس لينے نہ آيا تو كيا وہ ضامن بن كر اسے تجارت ميں لگا لے

12732

تاریخ اشاعت : 15-08-2005

مشاہدات : 4451

سوال

ايك شخص نے ميرے پاس بطور امانت كچھ رقم ركھى، كہ وہ تھوڑى مدت بعد واپس آكر يہ رقم واپس لے گا، ليكن بہت طويل مدت تك نہ تو واپس ہى آيا اور نہ ہى رابطہ ہى كيا، ميں نے اس كے ديے گئے ٹيلى فون نمبر پر بھى رابطہ كيا ليكن وہ شخص نہيں ملا.
سوال يہ ہے كہ: كيا ميں اس مال كو تجارت ميں لگا سكتا ہوں، اس شرط پر كہ ميں اس مال كى حفاظت كروں گا اور اس كے مانگنے پر واپس كرونگا، اور رقم ميں جو نقصان بھى ہو گا وہ ميں برداشت كرونگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ وتعالى اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم نے امانت ركھنے والوں كو ان كى امانتيں ادا كرنے كا حكم ديا ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

اللہ تعالى تمہيں تاكيدى حكم ديتا ہے كہ تم امانتيں امانت والوں كو ادا كرو النساء ( 58 ).

اور فرمان نبوى صلى اللہ عليہ وسلم ہے:

" جس نے آپ كے پاس امانت ركھى ہے اس كى امانت اسے واپس كرو"

جامع الترمذى حديث نمبر ( 1264 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے جامع الترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

لھذا آپ پر مالك كو مال واپس كرنا واجب ہے، اس ليے آپ كو چاہيے كہ اسے تلاش كريں، اور اس كے بارہ ميں دريافت كريں، اور بار بار ٹيلى فون كرتے رہيں اور رابطہ ركھيں حتى كہ وہ مل جائے.

اگر اس كے ملنے سے نااميد ہو جائيں تو اس كا محفوظ ركھيں، تا كہ وہ آكر آپ سے وصول كر لے، اور اس حالت ميں آپ كے ليے مالك كا نائب بن كر اس كا مال صدقہ كرنا جائز ہے- حتى الوسعہ مالك كو تلاش كرنے كے بعد - اور پھر اگر مالك كسى بھى وقت آپ كے پاس آئے تو آپ اسے اس كے متعلق بتائيں كہ آپ نے وہ مال صدقہ كر ديا ہے، يا تو وہ صدقہ كو تسليم كر لے گا، اور اس كا اجروثواب اسے حاصل ہوگا، يا پھر وہ اپنا مال واپس لے لے اور صدقہ كا ثواب آپ كو ملے گا.

مستقل فتوى كميٹى سے ايسے شخص كے بارہ ميں دريافت كيا گيا جس نے ايك شخص كے پاس امانت ركھى اور كئى برس گزرنے كے باوجود لينے نہيں آيا؟

تو كميٹى كا جواب تھا:

( آپ امانت ركھنے والے شخص كو تلاش كرنے ميں پورى اور انتہائى كوشش كرنى چاہيے، اگر تو وہ خود مل جائے يا اس كے ورثاء مل جائيں تو انہيں اس كا حق ادا كرديں، اور اگر ايسا كرنے سے عاجز ہو جائيں تو پھر اسے خير وبھلائى كے كاموں ميں مالك كى طرف سے صدقہ كى نيت سے صرف كرديں.

اور اگر اس كے بعد مالك يا اس كے ورثاء آجائيں تو انہيں اس كے متعلق بتائيں، اگر تو وہ راضى ہو جائيں تو ٹھيك اور اگر راضى نہ ہو تو اسے اس كى رقم واپس كرديں، اور جو كچھ آپ نے ادا كيا ان شاء اللہ اس كا اجروثواب آپ كو ملے گا ).

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15 / 404 ).

اور مستقل كميٹى سے ايسے شخص كے متعلق بھى دريافت كيا گيا جس نے كچھ رقم ايك دوسرے شخص كے پاس ركھى اور اپنے ملك چلا گيا اور واپس نہ آيا، جس شخص كے پاس يہ امانت ہے وہ اسے اس كى بستى اور شہر كا علم نہيں، اسے اس مال كا كيا كرنا چاہيے؟

تو كميٹى نے جواب ديا:

( اگر تو واقعہ بالكل ايسا ہى جيسا كہ ذكر كيا گيا ہے، تو اگر آپ چاہيں تو اس كى امانت محفوظ ركھيں، اور مذكورہ شخص كو تلاش كرنے كى جدوجھد جارى ركھيں، اور اگر چاہيں تو اپنے پاس رقم فقراء پر صدقہ كر ديں يا پھر كسى خيراتى پروگرام ميں اس نيت سے ديں كہ اس كا ثواب مالك كو ملے، اگر تو اس كے بعد مالك يا اس كے ورثاء آ گئے تو اسے واقع كى خبر كر ديں، اگر وہ راضى ہو جائے تو ٹھيك وگرنہ آپ اسے رقم واپس كريں، اور ان شاء اللہ آپ كو اجر وثواب حاصل ہو گا ).

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 15/ 406 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب