منگل 7 شوال 1445 - 16 اپریل 2024
اردو

بيوى كے اعتراف كے بعد بيوى كو طلاق دے دى اور والد اسے قسم ديتا ہے كہ بيوى سے رجوع مت كرے

127590

تاریخ اشاعت : 22-06-2011

مشاہدات : 4434

سوال

ميں نے بيوى كو طلاق دے دى كيونكہ اس نے كچھ اعترافات كيے تھے، ليكن اب وہ قسم اٹھاتى ہے كہ اس نے وہ كچھ نہيں كيا تھا، اور ميرے والد صاحب مجھے قسم دے رہے ہيں كہ تم اس سے رجوع مت كرو، اگر رجوع كروگے تو ميں تم سے برى ہوں برائے مہربان مجھے بتائيں كہ ميں كيا كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب آپ كى بيوى بااخلاق اور دين والى ہے يا پھر آپ اس سے اتنى محبت كرتے ہيں كہ اسے چھوڑ نہيں سكتے اور آپ اس سے رجوع كرنے كى رغبت ركھتے ہيں ليكن آپ كے والد ايسا نہيں كرنے ديتے تو آپ كو چاہيے كہ اپنے والد كو راضى كريں چاہيے اس كے ليے اپنے اور والد كے مابين كسى رشتہ دار كو ڈاليں يا پھر كسى ايسے شخص كو جس كى نصيحت و بات آپ كے والد مانتے ہوں.

اگر والد صاحب مان جائيں تو الحمد للہ، اور والد پر قسم كا كفارہ لازم آئيگا، اور اگر وہ اپنے رائے پر مصر رہيں تو آپ كے ليے اس معاملہ ميں ان كى اطاعت لازم نہيں، كيونكہ اطاعت تو نيكى و معروف كے كاموں ميں ہوتى ہے، اور اس كام ميں جس ميں بيٹے كو ضرر نہ ہوتا ہو.

مطالب اولى النھى ميں درج ہے:

" بيوى كو طلاق دينے كے متعلق بيٹے پر اپنے والدين كى اطاعت واجب نہيں چاہے والدين عادل ہى ہوں، كيونكہ يہ نيكى ميں شامل نہيں " انتہى

ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 5 / 320 ).

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ سے ايسے شخص كے متعلق دريافت كيا گيا جو شادى شدہ اور اولاد والا تھا اور اس كى والدہ اس كى بيوى كو ناپسند كرتى تھى اور اسے طلاق كا مشورہ ديتى تھى كہ كيا اسے طلاق دينا جائز ہے ؟

شيخ الاسلام كا جواب تھا:

" اس كے ليے اپنى ماں كے كہنے پر طلاق دينى حلال نہيں بلكہ اسے اپنى ماں كے ساتھ حسن سلوك كرنا چاہيے اور اپنى بيوى كو طلاق دينا ماں كے ساتھ حسن سلوك ميں شامل نہيں ہوتا " واللہ تعالى اعلم انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى الكبرى ( 3 / 331 ).

شيخ محمد بن صالح بن عثيمين رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا:

جب والد اپنے بيٹے سے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا كہے تو يہ دو حالتوں سے خالى نہيں:

پہلى حالت:

والد اس كا شرعى سبب بيان كرے جو طلاق كا متقاضى ہو مثلا وہ كہے كہ اپنى بيوى كو طلاق دے دو كيونكہ اس كے اخلاق ميں شك ہے، يعنى يہ غير مردوں سے ميل جول ركھتى ہے يا پھر غير اخلاق جگہوں پر جاتى ہے.

اس حالت ميں وہ والد كى بات تسليم كرتا ہوا بيوى كو طلاق دے دے؛ كيونكہ والد نے اپنى خواہش كى بنا پر اسے طلاق دينے كا نہيں كہا، ليكن اس نے اپنے بيٹے كے بستر كو گندا ہونے سے بچانے كے ليے طلاق كا مطالبہ كيا ہے تو وہ اسے طلاق دے دے.

دوسرى حالت:

والد اپنے بيٹے كو كہے: اپنى بيوى كو طلاق دے دو كيونكہ بيٹا اپنى بيوى سے بہت زيادہ محبت كرتا تھا والد بيٹے كى اس محبت سے غيرت ميں آ گيا، اور پھر ماں تو زيادہ غيرت كرتى ہے كيونكہ بہت سارى مائيں جب ديكھتى ہيں كہ ان كا بيٹا اپنى بيوى سے محبت كرتا ہے تو وہ غيرت ميں آ جاتى ہيں حتى كہ بيوى كو اپنى سوكن سمجھنے لگ جاتى ہيں، اللہ تعالى سے سلامتى و عافيت كى دعا ہے.

اس حالت ميں بيٹے كے ليے والدين كے كہنے پر بيوى كو طلاق دينا لازم نہيں، ليكن اسے چاہيے كہ وہ والدين كى خاطر مدارت كرے اور اپنى بيوى كو اپنے پاس ہى ركھے طلاق نہ دے اور نرم لہجہ سے والدين كو الفت كے ساتھ راضى كرے كہ وہ اسے رہنے ديں، اور خاص كر جب بيوى دين و اخلاق كى مالك ہو.

امام احمد رحمہ اللہ سے بالكل ايسے ہى مسئلہ كے متعلق دريافت كيا گيا ايك شخص ان كے پاس آيا اور عرض كى ميرے والد صاحب مجھے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا كہتے ہيں ؟

امام احمد رحمہ اللہ نے اسے كہا:

تم اسے طلاق مت دو.

وہ كہنے لگا: كيا ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو جب عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے بيٹے سے اپنى بيوى كو طلاق دينے كا حكم ديا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں اس كا حكم نہيں ديا تھا ؟

تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمايا:

كيا تمہارا باپ عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى طرح ہے ؟

اور اگر باپ اپنے بيٹے پر يہ دليل لے اور اسے كہے: بيٹے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كو ان كے باپ عمر كے كہنے كے مطابق طلاق دينے كا حكم ديا تھا تو اس كا جواب يہى ہوگا كہ:

يعنى كيا تم عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى طرح ہو ؟

ليكن يہاں بات ميں نرمى اختيار كرتے ہوئے يہ كہنا چاہيے كہ: عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے كوئى ايسى چيز ديكھى تھى جو طلاق كى متقاضى تھى اور مصلحت اسى ميں تھى كہ وہ بيٹے كو كہيں كہ اسے طلاق دے دے.

اس مسئلہ كے متعلق بہت زيادہ سوال ہوتا ہے تو اس كا جواب يہى ہے " انتہى

ديكھيں: الفتاوى الجامعۃ للمراۃ المسلمۃ ( 2 / 671 ).

اور بيوى سے رجوع نہ كرنے كا حكم بھى بيوى كو طلاق دينے كے حكم جيسا ہى ہے، اس ليے اس ميں بھى والدين كى اطاعت لازم نہيں، ليكن آپ كو چاہيے كہ آپ اپنے اور والدين كے مابين متوقع خرابى پيدا ہونے اور اپنى بيوى سے عليحدگى كے نتيجہ ميں پيدا ہونے والى خرابى ميں موازنہ كريں.

اور پھر آپ اپنے والدين كى طبيعت سے زيادہ واقف ہيں كہ ان ميں معاف كرنے كا احتمال كتنا ہے، اور آپ سے برى ہونے سے وہ كس قدر رجوع كر سكتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب