جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

خاوند اور بيوى كا آپس ميں جھگڑا ہوا تو بيوى نے طلاق كا مطالبہ كر ديا اور خاوند نے طلاق دے كر نادم ہوا

131227

تاریخ اشاعت : 07-02-2010

مشاہدات : 4329

سوال

كل رات ميرے اور بيوى كے مابين شديد جھگڑا ہوا اور سب و شتم تك ہوئى تو بيوى نے طلاق كا مطالبہ كيا تو ميں نے طلاق دے دى حالانكہ بالفعل ميں طلاق كا ارادہ نہيں ركھتا تھا، اور ميں نے طلاق كے الفاظ پر بہت زيادہ ندامت بھى كى اب مجھے علم نہيں ميں كيا كروں، اور اگر ہمارے درميان طلاق ہو گئى ہے تو كيا حكم ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر آدمى اپنى بيوى كو صريح طلاق كے الفاظ بولے مثلا انت طالق، يا مطلقہ يا طلقتك كہے تو ايك طلاق واقع ہو جائيگى چاہے وہ كہے كہ ميں نے طلاق كا ارادہ نہيں كيا تھا؛ كيونكہ طلاق كے صريح الفاظ ميں نيت شرط نہيں.

ليكن اگر طلاق شديد غصہ كى حالت ميں ہو وہ اس طرح كہ غصہ ہى طلاق كا سبب بنے يعنى اگر غصہ نہ ہوتا تو وہ طلاق نہ ديتا تو اكثر اہل علم كے ہاں طلاق واقع نہيں ہوگى.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ايك شخص كى بيوى اس كے ساتھ برا سلوك كرتى ہے اور اسے گالياں ديتى ہے تو اس نے غصہ كى حالت ميں طلاق دے دى تو اس كا حكم كيا ہو گا ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" اگر مذكورہ طلاق آپ سے شديد غصہ اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں ہوئى ہے، اور آپ كو آپس ميں غلط كلام اور بيوى كى گاليوں كى بنا پر اپنے آپ پر كنٹرول نہيں تھا اور اپنے اعصاب كے مالك نہ تھے، اور آپ نے يہ طلاق شديد غصہ اور شعور نہ ہونے كى حالت ميں دى اور وہ بيوى بھى اس كى معترف ہے يا پھر آپ كے پاس كوئى ايسا عادل گواہ ہے جو اس كى گواہى دے كہ طلاق شديد غصہ اور شعور غائب ہونے كى حالت ميں ہوئى تو يہ طلاق واقع نہيں ہوگى.

كيونكہ شرعى دلائل اس پر دلالت كرتے ہيں كہ شديد غصہ ـ جبكہ اس كے ساتھ شعور بھى نہ رہے تو اور عظيم ہے ـ كى حالت ميں دى گئى طلاق واقع نہيں ہوتى.

ان دلائل ميں مسند احمد اور ابو داود اور ابن ماجہ كى درج ذيل حديث ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" عقل پر پردہ ہونے كى حالت ميں نہ تو طلاق ہے اور نہ ہى آزادى "

اہل علم كى ايك جماعت كا كہنا ہے كہ اغلاق سے مراد اكراہ يا غضب يعنى جبر يا غصہ ہے؛ اس سے وہ شديد غصہ مراد ليتے ہيں، چنانچہ غصہ ميں ہونے والے شخص پر اس كے غضب اور غصہ نے اس كے قصد و ارادہ كو بند كر ديا ہے، اور يہ شدت غضب كى بنا پر بالكل اس مجنون اور پاگل اور نشہ ميں ہونے والے شخص كى طرح ہے، اس ليے اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى اور اگر اس غيض و غضب كے ساتھ اس كا شعور اور احساس بھى جاتا رہے اور اس سے جو صادر ہو رہا ہے اس پر اس كو ضبط نہ كر سكے تو طلاق واقع نہيں ہوگى.

غصہ والے شخص كى تين حالتيں ہيں:

پہلى حالت:

وہ حالت جس كے ساتھ احساس اور شعور جاتا رہے، تو اسے مجنون اور پاگلوں كے ساتھ ملحق كيا جائيگا، اور سب اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى.

دوسرى حالت:

اگرچہ اسے شديد غصہ آئے ليكن وہ احساس و شعور نہ كھوئے، بلكہ اس ميں كچھ نہ كچھ احساس اور شعور پايا جائے اور عقل ہو ليكن غصہ شديد ہونے كى بنا پر وہ طلاق دے دے، تو صحيح قول كے مطابق اس كى بھى طلاق واقع نہيں ہوگى.

تيسرى حالت:

اس كا غصہ عام ہو شديد نہ ہو، بلكہ سارے غضب كى طرح عام ہو جو لوگوں ميں پايا جاتا ہے تو يہ شخص ملجئ نہيں اور سب اہل علم كے ہاں اس كى طلاق واقع نہيں ہوگى " انتہى

ماخوذ از: فتاوى الطلاق جمع و ترتيب ڈاكٹر عبداللہ الطيار و محمد الموسى ( 19 - 21 ).

دوم:

جب آدمى اپنى بيوى كو پہلى يا دوسرى طلاق دے تو اس كے ليے عدت كے اندر اندر بيوى سے رجوع كرنا جائز ہے، اور اگر عدت ختم ہو جائے تو وہ اس سے رجوع نہيں كر سكتا ليكن اگر عورت راضى ہو تو نئے مہر كے ساتھ نيا نكاح كر سكتا ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 11798 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

آپ كو چاہيے كہ غصہ كى حالت ميں اور نہ ہى خوشى و رضا كى حالت ميں طلاق كے الفاظ استعمال مت كريں، كيونكہ طلاق اس ليے مشروع نہيں كى گئى كہ آپ اپنے غصہ كو ٹھنڈا كرتے پھريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب