جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

انسان کی خلقت

13286

تاریخ اشاعت : 03-08-2003

مشاہدات : 14059

سوال

کیا آپ انسان کی ابتداء خلقت کے بارہ میں معلومات دے سکتے ہیں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

 اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کواپنے ھاتھ سے پیدا فرمایا اوراس میں اپنی روہ پھونکی اور فرشتوں سے اسے سجدہ کروایا ۔

اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کومٹی سے پیدافرمایا جیسا کہ اللہ تعالی نے اس فرمان میں فرمایا ہے :

اللہ تعالی کے ہاں عیسی (علیہ السلام ) کی مثال ہوبہو آدم (علیہ السلام ) کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کرکہہ دیا کہ ہوجا تووہ ہوگیا آل عمران ( 59 )۔

اورجب اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی پیدائش مکمل کی توفرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم علیہ السلام کوسجدہ کریں توان سب نے سجدہ کیا اوراس وقت ابلیس بھی وہاں موجود تھا لیکن اس نے تکبرکرتے ہوۓ سجدہ کرنے سے انکار کردیا ، جیساکہ اللہ تعالی نے اس فرمان میں ذکرکیا ہے :

جب آپ کے رب نے فرشتوں سے ارشاد فرمایا کہ میں مٹی سے انسان کو پیدا کرنے والا ہوں ، توجب میں اسے ٹھیک ٹھاک کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدے میں گرپڑنا ، چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے ( نہ کیا ) اس نے تکبر کیااور وہ کافروں میں سے تھا ص ( 71 - 74 ) ۔

پھراللہ تعالی نے فرشتوں کویہ بتایا کہ وہ آدم علیہ السلام کوزمین میں خلیفہ بنانے والا ہے ، توفرمایا :

اورجب آپ کےرب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں البقرۃ ( 30 ) ۔

اورآدم علیہ السلام کو سب نام سکھا دیۓ اسی کا ذکراللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کچھ اس طرح کیا ہے :

اورآدم ( علیہ السلام ) کوسب کے سب نام سکھا دیۓ البقرۃ ( 31 )۔

اورجب ابلیس نے آدم علیہ السلام کوسجدہ نہ کیا تواللہ تعالی نے اسے دھتکار دیا اوراس پرلعنت کردی ، جیسا کہ اللہ تعالی کے اس فرمان ہے :

فرمان جاری ہوا کہ تویہاں سے نکل جا تومردود ہے ، اور تجھ پرقیامت کے دن تک میری لعنت اورپھٹکار ہے ص ( 77- 78 ) ۔

جب ابلیس نے اپنا انجام جان لیا تو اس نے اللہ تعالی سے قیامت تک کے لیے مہلت طلب کی ، جس کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کیا ہے :

کہنے لگا میرے رب مجھے لوگوں کے اٹھ کھڑے ہونے کے دن تک مہلت دے ( اللہ تعالی نے ) فرمایا تومہلت والوں میں سے ہے ایک متعین وقت تک کے لیے ص ( 79 - 81 ) ۔

جب اللہ تعالی نے اسے مہلت دے دی تواس نے آدم علیہ السلام اوران کی اولاد کے خلاف اعلان جنگ کردیا کہ وہ انہیں فحاشی کے کاموں اور معاصی کے ساتھ گمراہ کرے گا ، اس کا ذکراللہ تعالی نے اس طرح فرمایا :

وہ کہنے لگا پھرتوتیری عزت کی قسم ! میں ان سب کویقینا بہکا دوں گا ، سواۓ تیرے ان بندوں کے جوچیدہ اورپسندیدہ ہوں ص ( 82- 83 ) ۔

اوراللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کوپیدا فرمایا اور ان سے ہی ان کی بیوی کوپیدا کیا اور ان دونوں کی نسل سے مرد و عورت کوآگے چلایا جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں فرمایا :

اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا اور اسی سے اس کی بیوی کوپیدا کرکے ان دونوں سے بہت سے مرد وعورتيں پھیلادیں النساء ( 1 ) ۔

پھراللہ تعالی نے آدم علیہ السلام اوران کی بیوی کوبطورامتحان جنت میں رہائش دی اورانہیں یہ حکم دیا کہ وہ جنت کے پھل کھائيں لیکن اللہ تعالی نے انہیں ایک درخت سے منع کردیا کہ اس کے قریب بھی نہیں جانا اسی چیزکا ذکر کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے فرمایا :

اورہم نے کہہ دیا کہ اے آدم ! تم اورتمہاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں کہیں سے چاہو بافراغت کھاؤ پیؤ لیکن اس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظلم کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے البقرۃ ( 35 ) ۔

اوراللہ تعالی نے آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کوشیطان سے بچنے کا کہتے ہوۓ فرمایا :

توہم نے کہا اے آدم ( علیہ السلام ) یہ تیرا اورتیری بیوی کا دشمن ہے ( خیال رکھنا ) ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کوجنت سے نکلوا دے تو تم مصیبت میں پڑھ جاؤ طہ ( 117 ) ۔

پھرشیطان نے آدم اوران بیوی حواء علیہما السلام کومنع کیے درخت کے متعلق وسوسہ میں ڈالا اورانہيں سبز باغ دکھاۓ توآدم علیہ السلام بھول گۓ اور ان کا نفس کمزور پڑگيا توانہوں نے اپنے رب کی نافرمانی کرتے ہوۓ درخت کا پھل کھا لیا جس کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکرکیا ہے :

لیکن شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا اورکہنے لگا کیا میں تمہیں دائمی زندگی کا درخت اوربادشاہت نہ بتلاؤں جو کہ پرانی نہ ہو ، چنانچہ ان دونوں ان دونوں نے اس درخت سے کچھ کھا لیا توان کے ستر کھل گۓ اور وہ جنت کے پتے اپنے اوپر ٹانکنے لگے ، آدم علیہ السلام نے اپنے رب کی نافرمانی کی تووہ بہک گۓ طہ ( 120 - 121 ) ۔

توان دونوں کے رب نے انہیں پکارکرکہا :

اوران کے رب نے انہیں پکار کرکہا کیا میں نے تم دونوں کواس درخت سے منع نہیں کیا تھا اور نہیں کہا تھا کہ شیطان تمہارا صریحا دشمن ہے ؟ الاعراف ( 22 ) ۔

اورجب انہوں نے اس درخت کا پھل کھالیا تواپنے اس فعل پرندامت کا اظہار کرتے ہوۓ کہنے لگے :

دونوں نے کہا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا اوراگر تو ہماری مغفرت نہ کرے اورہم پر رحم نہیں کرے گا توہم نقصان پانے والے والوں میں سے ہوجائيں گے الاعراف ( 23 ) ۔

اورآدم علیہ السلا کی یہ معصیت بطوراشتھاء تھی نہ کہ بطور استکبارو تکبر ، تو اسی لیے اللہ تعالی نے ان کی راہنمائ توبہ کی طرف فرمائ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ اللہ تعالی نے فرمایا :

آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے چندباتیں سیکھ لیں اور اللہ تعالی نے ان کی توبہ قبول فرمائ بلاشبہ اللہ تعالی ہی توبہ قبول کرنےوالا اور رحم کرنے والا ہے البقرۃ ( 37 ) ۔

توآدم علیہ السلام کی امت میں یہ سنت جاری ہوگئ کہ جوبھی کوئ گناہ کربیٹھے توپھرسچائ کےساتھ توبہ کرے اللہ تعالی اس کی توبہ قبول کرتا ہے ، فرمان باری تعالی ہے :

اور وہی ہے جواپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اورگناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور جوکچھ تم کرتے ہو وہ سب جانتا ہے الشوری ( 25 ) ۔

پھراللہ تعالی نے آدم علیہ السلام اوران کی زوجہ اور ابلیس کو زمین کی طرف اتار دیا اور ان پروحی کا نزول فرمایا اوران کی طرف رسول مبعوث فرماۓ‌ توان میں سے جوبھی ایمان لایا وہ جنت میں داخل ہوگا ، اور جو بھی کفرکا ارتکاب کرے گا وہ جہنم میں جاۓ گا جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :

ہم نے کہا کہ تم سب یہاں سے چلے جاؤ ، جب کبھی تمہارے پاس میری ھدایت پہنچے تواس کی تابعداری کرنے والوں پرکوئ خوف اور غم نہیں ، اور جو انکار کرکے ہماری آیتوں کوجھٹلائيں ، وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ اسی میں رہيں گے البقرۃ ( 38 - 39 ) ۔

اورجب اللہ تعالی نے سب کوزمین پراتاردیا توایمان وکفر اور حق وباطل اورخیرو شر کے درمیان معرکہ شروع ہوگیا اور یہ معرکہ اس وقت تک باقی رہے گا جب تک زمین اوراس پررہنے والے موجود ہیں حتی کہ اللہ تعالی اس کا وارث ہوجاۓ ، فرمان باری تعالی ہے :

اللہ تعالی نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاؤ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہوگے اور تمہارے واسطے زمین میں ایک وقت تک رہنے کی جگہ اور نفع حاصل کرنا ہے الاعراف ( 24 ) ۔

اوراللہ تعالی ہرچیز پر قادر ہے آدم علیہ السلام کوبغیر ماں باپ کے پیدا کیا اوراورحواء علیہا السلام کو ماں کے بغیر صرف باپ سے پیدا فرمایا اورعیسی علیہ السلام کوباپ کے بغیر صرف ماں سے پیدا فرمایا اور ہمیں ماں اورباپ دونوں سے پیدا فرمایا ہے ۔

اوراللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کومٹی سے پیدا فرمایااوران کی نسل ایک ذلیل اوربے قدر پانی سے چلائ جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

جس نے جوبھی چیز بنائ اسے نہایت اچھا بنایا اور انسان کی بناوٹ مٹی سے شروع کی ، پھر اس کی نسل ایک بے وقعت و ذلیل پانی کے نچوڑ سے چلائ ، جسے ٹھیک ٹھاک کرکے اس میں اپنی روح پھونکی ، اسی نے تمہارے کان آنکھیں اوردل بناۓ ( اس پربھی ) تم بہت ہی تھوڑا احسان مانتے ہو السجدۃ ( 7 - 9 )۔

اورانسان کی پیدائش رحم مادر میں کئ مراحل میں پوری ہوتی ہے جس میں انتہائ قسم کا اعجاز پایا جاتا ہے جسے اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کچھ اس ذکر کیا ہے :

اوریقینا ہم نے انسان کومٹی کے جوہر سے پیدا فرمایا ، پھراسے نطفہ بنا کر محفوظ جگہ میں قرار دے دیا ، پھرنطفہ کو ہم نے جما ہوا خون بنا دیا ، پھر اس خون کے لوتھڑے کو گوشت کا ٹکڑا بنا دیا ،پھر گوشت کے ٹکڑے کوہڈیاں بنادیں ، پھرہڈیوں کو ہم نے گوشت پہنا دیا ، پھردوسری بناوٹ میں اس کوپیدا کردیا برکتوں والا ہے وہ اللہ جوسب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے المومنون ( 12 - 14 ) ۔

اوراللہ وحدہ ہی ہے جوچاہے پیدا کرتا اور رحم مادر میں جوکچھ ہے اس کا علم رکھتا ہے اوراوررزق اورزندگی کومقرر کرتا ہے ، اللہ سبحانہ وتعالی نے اسے کچھ اس طرح بیان کیا ہے :

آسمانوں اورزمین کی سلطنت اللہ تعالی ہی کے لیے ہے ، وہ جوچاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتاہے بیٹیاں اورجسے چاہتا ہے بیٹے دیتے ہیں ، یاانہیں جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اوربیٹیاں بھی اورجسے چاہے بانجھ کردیتا ہے ، وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے الشوری ( 49 - 50 ) ۔

اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :

( بلاشبہ اللہ عزوجل نے ایک فرشتہ کے ذمہ رحم مادر کے امورلگا رکھے ہیں وہ فرشتہ کہتا ہے اے رب نطفہ ، اے رب جما ہوا خون ، اے رب گوشت کا ٹکڑا ، توجب یہ چاہتا ہے کہ اس کی خلقت مکمل کرے توکہتا ہے اے رب لڑکی یا لڑکا ؟ نیک بخت یا بدبخت ؟ اوراس کا رزق کیا ہے اور عمرکتنی ہے ؟ تو ماں کے پیٹ میں ہی یہ لکھ دیا جاتا ہے ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 318 ) ۔

اوراللہ تعالی نے بنی آدم کوعزت وتکریم کا تاج پہناتے ہوۓ آسمان وزمین میں جوکچھ بھی ہے سب اس کے لیے مسخر کردیا ، جس کا ذکر اللہ تعالی نے کچھ اس طرح فرمایا ہے :

کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی ہرچيزتمہارے لیے مسخر کررکھی ہے اور تمہیں اپنی ظاہری وباطنی نعمتیں بھرپور دے رکھی ہیں لقمان ( 20 ) ۔

اوراللہ تبارک وتعالی نے انسان کوعقل دے کرعزت وتکریم اورامتیاز سے نوازا جس عقل کے ساتھ وہ اپنےپروردگار اور خالق و رازق کوپہچانتا ہے ، اوراسی عقل سے اچھا‏ئ وبرائ میں تمیز کرتا ہے اور جواس کے نفع اورنقصان کی اشیاء ہیں ان میں امتیاز کرتا اورحلال وحرام پہچانتا ہے ۔

اورپھر اللہ تعالی نے انسان کوپیدا کرکے ایسی ہی نہیں چھوڑدیا کہ وہ کسی منھج اورطریقے اور بغیر کسی لائحہ عمل کے اپنی زندگی گزارے ، بلکہ اللہ تعالی نے اسے پیدا فرمایا تواس کی بھلائ ورشد اورصراط مستقیم کی ھدایت کے لیے کتابیں نازل فرما‏ئيں اور انبیاءو رسل مبعوث فرماۓ ۔

اللہ تبارک وتعالی نے لوگوں کوفطرت توحید پرپیدا فرمایا توجب بھی وہ اس سے منحرف ہوۓ اللہ تعالی نے انبیاء مبعوث فرماۓ جو کہ انہیں صراط مستقیم کی طرف لائيں ان میں سب سے پہلے نبی آدم علیہ السلام اورآخری محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہيں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے :

دراصل لوگ ایک ہی جماعت تھے اللہ تعالی نے نبیوں کوخوشخبریاں دینے اورڈرانے والے بنا کربھیجا اور ان کے ساتھ سچی کتابیں نازل فرمائيں ، تا کہ لوگوں کے ہراختلافی امر کا فیصلہ ہوجاۓ البقرۃ ( 213 ) ۔

اورسب رسل ایک ہی حقیقت کی طرف دعوت دیتے رہے کہ اللہ وحدہ کی عبادت اور اس سوا ہرایک کا کفر کیا جاۓ اس کا ذکر اللہ تعالی نے اس آيت میں فرمایا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ ( لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو النحل ( 36 ) ۔

جس دین کوسب انبیاء ورسل لاۓ وہ ایک ہی دین تھا جو کہ دین اسلام ہے ، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :

بلاشبہ اللہ تعالی کے ہاں تودین اسلام ہی ہے آل عمران ( 19 ) ۔

اوران آسمانی کتب کا اختتام قرآن مجید پر ہواجو کہ پہلی سب کتابوں کی تصدیق کرنے والا اورسب لوگوں کے لیے باعث رشدوھدایت ہے اللہ سبحانہ وتعالی نے فرمایا ہے :

الر ! ہم نے آپ کی طرف عالی شان کتاب نازل فرمائ ہے تاکہ آپ لوگوں کواندھیرے سے اجالے کی طرف لائيں ابراھیم ( 1 ) ۔

اورانبیاء ورسل کا سلسلہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرختم کیا جس کا ذکر اللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں کچھ اس طرح کیا :

( لوگو) محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ تعالی کے رسول اورتمام نبیوں کے ختم کرنے والے ہیں ( یعنی خاتم النبیین ہیں ) الاحزاب ( 40 ) ۔

اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں کی طرف مبعوث کیۓ گۓ ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا :

آپ کہہ دیجۓ کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ تعالی کا رسول ہوں الاعراف ( 158 ) ۔

توقرآن کریم آسمانی کتب میں سے آخری اور سب سے عظیم کتاب اورمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سب انبیاء ورسل میں سے افضل اورآخری نبی ہیں ، اوراللہ تعالی نے قرآن کریم کے ساتھ باقی سب آسمانی کتب کومنسوخ کردیا ، توجو بھی قرآن مجید کی پیروی نہیں کرتا اورنہ ہی وہ واسلام میں داخل ہوتا ہے اوراسی طرح نہ ہی وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لاتا اور نہ ہی ان کی اطاعت کرتا ہے تواس کا کوئ بھی عمل قابل قبول نہیں اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورجو شخص اسلام کے علاوہ کوئ اوردین تلاش کرتاپھرے تواس کا وہ دین قابل قبول نہیں ہوگا اوروہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہوگا آل عمران ( 85 ) ۔

اورجو دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم لاۓ ہیں پہلے سب انبیاء کے اصول دین اورمکارم اخلاق کی تاکید ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اس فرمان میں ذکر کیا ہے جس کا ترجمہ کچھ اس طرح ہے :

اللہ تعالی نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کے قائم کرنے کا حکم اس نے نوح ( علیہ السلام ) کودیا اور ہم نے جو وحی تیری طرف بھیج دی ہے اورجس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراھیم اور موسی اور عیسی ( علیہم السلام ) کو دیا تھا کہ اس دین کوقائم رکھنا اوراس میں پھوٹ نہ ڈالنا الشوری ( 13 ) ۔.

ماخذ: شیخ محمد بن ابراھیم التویجری کی کتاب " اصول الدین الاسلامی " سے لیا گیا ۔