منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

بچوں كے پارك ميں جانے كا حكم اور ذى روح كے بتوں سے كھيلنے كا حكم

134777

تاریخ اشاعت : 24-10-2010

مشاہدات : 7918

سوال

بچوں كے پاركوں ميں جانے كا حكم كيا ہے؛ كيونہ وہاں اكثر كھيلنے والى اشياء جانوروں كى شكل ( گھوڑا، بندر ) ميں ہوتے ہيں.
اور بعض كھيلوں پر بھى جانوروں كے مجسمے ہوتے ہيں تو كيا يہ شرعى طور پر حرام مجسموں ميں شمار ہونگے تو اس كے نتيجہ ميں ان كھيلوں كے پارك ميں جانا جائز نہيں ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بچوں كى كھيلوں كے پارك ميں جانے كے بارہ ميں كلام دو طرح سے ہے:

اول:

ان پاركوں ميں جو برائى اور منكر اشياء پائى جاتى ہيں مثلا مرد و عورت كا اختلاط، اور عورتوں كى بےپردگى، اور موسيقى و گانا بجانا.

اگر تو وہاں اس طرح كى كوئى برائى يا كوئى اور غلط كام ہے تو پھر وہاں جانا جائز نہيں ہے.

شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

بہت سے والدين اپنے بچوں كو كھيلوں كے پارك ميں لے جاتے ہيں جہاں شرعى مخالفات مثلا عورتوں كى بےپردگى وغيرہ پائى جاتى ہے، اور بچے يہاں جانے كى حرص بہت زيادہ ركھتے ہيں، برائے مہربانى يہ بتائيں كہ ايسے پاركوں ميں جانے كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" جيسا كہ ہمارے سائل بھائى نے بيان كيا ہے كھيلوں كے ان پاركوں ميں برائياں اور غلط چيزيں پائى جاتى ہيں، اور جب كسى جگہ برائى اور غلط چيزيں ہوں اور انسان وہاں سے اس برائى اور غلط اشياء ختم كرنے كى ا ستطاعت ركھتا ہو تو انسان كے ليے وہاں جا كر اسے ختم كرنا واجب ہو جاتا ہے.

اور اگر وہ اس كى استطاعت نہ ركھتا ہو تو پھر اس كا وہاں جانا حرام ہوگا.

اس صورت ميں ہم يہ كہينگے: آپ اپنى اولاد كو ليكر كھلى جگہ صحراء ميں چلے جائيں يہى كافى ہے، ليكن آپ انہيں لے كر ان پاركوں ميں جائيں جہاں مرد و عورت كا اختلاط پايا جاتا ہے، اور پھر وہاں وہ غلط قسم كے لوگ بھى ہيں جو عورتوں كو تنگ كرتے ہيں، اور پھر وہاں وہ لباس بھى ہے جو عورتوں كے ليے پہننا حلال نہيں تو پھر وہاں جانا اسى صورت ميں جائز ہے جب وہ اس برائى كو ختم كرنے كى طاقت ركھتا ہو، اور اگر طاقت نہيں ركھتا تو وہاں جانا حرام ہوگا " انتہى

ديكھيں: اللقاء الشھرى ( 75 ) سوال نمبر ( 8 ).

شيخ عبد اللہ بن جبرين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

بعض والدين ـ اللہ تعالى ہميں اور انہيں اور سب مسلمانوں كو ہدايت نصيب فرمائے ـ اپنے بيوى بچوں كو لے كر ايسى جگہوں پر لے جاتے جنہيں كھيل پارك كہا جاتا ہے اور وہاں چھوٹے اور بڑوں كے ليے كھيليں ہوتى ہيں، وہاں عورتيں سب كے سامنے بےپردگى كى حالت ميں كھيليں كھيلتى ہيں، اور پھر بہت سارى عورتيں اور لڑكياں چھوٹا اور تنگ لباس پہن كر جاتى ہيں اور كچھ نے پتلونيں بھى پہن ركھى ہوتى ہيں.

اور كچھ عورتوں كا تو صرف ستر ہى چھپا ہوتا ہے، اور كچھ عورتيں وہاں تصويريں بنا رہى ہوتى ہيں، يہ علم ميں رہے كہ بعض نيك و صالح عورتيں ہم تو انہيں ايسا ہى سمجھتى ہيں ـ اللہ پر ہم كسى كا تزكيہ نہيں كرتے اللہ ہى كافى ہے ـ وہ بھى ان جگہوں پر جاتى ہيں.

نہ تو يہ لوگ برائى كو روكتے ہيں، اور نہ ہى نيكى كا حكم ديتے ہيں، اور جب ہم انہيں وہاں نہ جانے كى نصيحت كرتے ہيں تو وہ دليل ديتى ہيں كہ اس ميں كچھ نہيں، وہ تو صرف وہاں سير وتفريح كے ليے جاتى ہيں، بلكہ وہ اسے اچھى تربيت ميں شمار كرتے ہيں.

اور جو انہيں نصيحت كرے اسے متشدد كہتے ہيں، آپ سے گزارش ہے كہ اس سلسلہ ميں كوئى نصيحت كريں جس ميں اس كے نتيجہ ميں مرتب ہونے والے امور اور خرابياں بيان كر كے آپ مشكور و ممنون ہوں، اللہ تعالى آپ كى حفاظت فرمائے.

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

ميرے خيال ميں ان تفريحى پاركوں ميں جانا جائز نہيں جہاں ايسى چيزيں اور كھيليں پائى جاتى ہوں جو سوال ميں بيان كى گئى ہيں؛ كيونكہ يہ فتنہ وفساد اور خرابى كے اسباب ميں شامل ہوتا ہے، اور پھر يہى نہيں بلكہ معاصى و گناہ كى طرف ميلان ہے.

بچپن ميں بچے كى بےپردگى كى محبت پر تربيت كرنا، اور انہيں مرد و عورت ميں اختلاط سكھلانا بہت ہى خطرناك امر ہے، بلاشك و شبہ بچے اور بچيوں كا يہ مخلوط تفريحى پارك ديكھنا اور ان فاسق قسم كے لوگوں كے ساتھ اختلاط كرنا ان حرام عادات كے عادى ہونے كا سبب بنتا ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ ان حرام كاموں كو آسان سمجھنے كا سبب بنتا اور اسے مباح ہونے كا اعتقاد ركھنے كا باعث بنتا ہے.

يہاں اور دوسرى جگہوں پر ايسى برائيوں كو نہ روكنے سے بچے كے ليے اس قسم كے لباس اور ان فاسقوں كى نقالى كرنے كى محبت پيدا ہوتى ہے.

اور اسے تفريح اور سير كا نام دے كر جائز نہيں كيا جا سكتا، كيونكہ اس كے قائم مقام اور نعم البدل موجود ہيں مثلا اجنبى مردوں سے خالى جگہيں صحراء اور ميدان وغيرہ، يا پھر ايسے پاركوں ميں جانا جہاں مرد و عورت كا اختلاط نہيں، يا پھر گھروں ميں ہى مفيد كاموں ميں مشغول رہنا، اور علم نافع اور مفيد كتابوں كا مطالعہ كرنا، اور تاريخ اسلام كى ورق گردانى كرنے ميں ہى اصل تفريح پائى جاتى ہے.

نہ تو اس ميں كوئى برائى پائى جاتى ہے اور نہ ہى ممانعت، اور پھر ايسا كرنے سے واضح اور كھلے دينى خسارہ سے بھى بچا جا سكتا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى ہى مدد كرنے والا ہے " انتہى

ماخوذ از: شيخ رحمہ اللہ كى ويب سائٹ سوال نمبر ( 11036 ).

سوال ديكھنے كے ليے درج ذيل لنك استعمال كريں:

دوم:

وہ يہ كہ اس جگہوں پر جو مجسمے اور بت پائے جاتے ہيں بلاشك و شبہ يہ بھى ايك برائى ہے، اور جو گھوڑے يا بندر وغيرہ كے مجسمے كى شكل ميں ہيں جن پر بچے سوارى كرتے ہيں يہ بھى بت اور مجسمے ہى ہيں ان سے خارج نہيں.

بچوں كے ليے وہ كھيل مباح ہے جس ميں اس مجسمے كى توہين ہوتى ہو اور اس سے كھيلا جائے، نہ كہ جسے ذى روح كى شكل ميں بنايا جائے اور پھر اس كى عزت و احترام كيا جائے اور اس كا خيال ركھا جائے اور اس كى حفاظت كى جائے.

شيخ خالد المشيقح حفظہ اللہ كا كہنا ہے:

" يہ كھيلوں كى اشياء جو تصويروں اور مجسموں كى شكلوں ميں ہوں ان كے بارہ ميں ظاہر يہى ہوتا ہے كہ يہ جائز نہيں، اور بچوں كو ان اشياء سے كھيلنے نہيں دينا چاہيے؛ كيونكہ تصوير كے بارہ ميں شديد وعيد وارد ہے.

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ كو فرمايا تھا:

" تمہيں جو تصوير بھى ملے اسے مسخ كر دو، اور جو اونچى قبر ملے اسے برابر كر دو "

اسے امام مسلم نے روايت كيا ہے.

اور ايك حديث ميں ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے عمرو بن عبسہ نے دريافت كيا:

اللہ سبحانہ و تعالى نے آپ كو كيا دے كر مبعوث كيا ہے ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" صلہ رحمى كرنے اور بتوں كو توڑنے كے ليے، اور اللہ تعالى كى وحدانيت كے ليے كہ اللہ كے ساتھ كسى چيز كو شريك مت بنايا جائے "

اسے امام مسلم نے روايت كيا ہے.

اسى طرح نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ بھى فرمان ہے:

" مجھے اللہ سبحانہ و تعالى نے سب جہانوں كے ليے رحمت بنا كر مبعوث كيا ہے، اور مجھے ميرے پروردگار نے بتوں كو مٹانے كا حكم ديا ہے "

اسے امام احمد نے مسند احمد ميں روايت كيا ہے.

لہذا سائل كو اپنے بچوں كى رغبات اور خواہشات كے پيچھے نہيں چلنا چاہيے، رہا اس كا نعم البدل تو ميں يہ كہوں گا كہ:

ان تفريحى مقامات جہاں پر يہ تصاوير اور مجسمے ہوں بچوں كو وہاں لے جانے كى بجائے ان كے ليے مباح قسم كے كھيل گھر ميں ہى لا دينا صحيح ہے، يا پھر كسى كھلى جگہ " انتہى

ماخوذ از:

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب