جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

جب كسى شخص كے گھر ميں اچانك كوئى فوت ہو جائے تو اسے كيا كرنا چاہيے

13543

تاریخ اشاعت : 15-04-2006

مشاہدات : 4813

سوال

جب كسى كا كوئى قريبى شخص اچانك فوت ہو جائے تو اس كے رشتہ داروں كو كيا كرنا چاہيے؟، بہت سے ان لوگوں اور ہر خاندان ميں يہى سوال تكرار سے پيدا ہوتا ہے جن كے پاس اس موضوع كے متعلق شريعت مطہرہ كا علم نہيں ہوتا.
كيا آپ ہميں دلائل كے ساتھ بتا سكتے ہيں كہ صحيح كيا ہے جو اس بارہ ميں كيا جائے، حتى كہ اگر ہم ميں سے بھى كوئى اس جيسے واقع سے دوچار ہو تو وہ اس ميں كسى بدعت كا ارتكاب نہ كر بيٹھے، يا غلطى نہ كر لے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جب ميت كى روح پرواز كر جائے اور اس كے اقرباء اور رشتہ داروں يا اس كے پاس موجود افراد كو مندرجہ ذيل كام كرنے چاہيں:

ا - اس كى آنكھيں بند كريں.

ب - اس كے ليے دعا بھى كريں.

اس كى دليل يہ ہے كہ ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ابو سلمہ كے پاس گئے تو ان كى آنكھيں پھٹى ہوئى تھيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ان كى آنكھيں بند كيں اور پھر فرمايا:

" جب روح قبض كى جاتى ہے تو آنكھيں اس كا پيچھا كرتى ہيں، تو ان كے گھر كے كچھ افراد چيخنے لگے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تم اپنے ليے دعائے خير كے علاوہ كوئى اوردعا نہ كرو، كيونكہ جو كچھ تم كہتے ہو فرشتے اس پر آمين كہتے ہيں.

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے اللہ ابو سلمہ كو بخش دے، اور مہديين ميں اس كے درجات بلند فرما، اور اس كے پيچھے رہنے والوں ميں تو اس كا جانشين بن جا، اے رب العالمين ہميں اور اسے بخش دے، اور اس كے ليے اس كى قبر كو فراخ اور وسيع كردے، اور اسے نور و روشنى سے بھر دے"

اسے مسلم اور احمد اور بيھقى وغيرہ نے روايت كيا ہے.

ج - اسے كپڑے سے ڈھانپ ديں جو اس كا سارا جسم چھپائے.

اس كى دليل عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث ہے كہ:

" جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فوت ہوئے تو انہيں سوتى چادر سے ڈھانپا گيا "

اسے شيخان بخارى اور مسلم نے صحيحين اور بيھقى وغيرہ نے روايت كيا ہے.

د ـ يہ تو اس كے متعلق ہے جو احرام كى حالت ميں فوت نہ ہو، ليكن جو شخص احرام كى حالت ميں فوت ہو اس كا سر اور چہرہ نہيں ڈھانپا جائےگا.

اس كى دليل ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى مندرجہ ذيل حديث ہے، وہ بيان كرتے ہيں:

" ايك شخص ميدان عرفات ميں وقوف كى حالت ميں تھا تو وہ اچانك اپنى سوارى سے گرگيا اور اس كى گردن ٹوٹ گئى، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اسے پانى اور بيرى سے غسل دو اور دو كپڑوں ميں كفن دو"

اور ايك روايت ميں ہے:

" اس كے دو كپڑوں ميں ہى ( جن ميں اس نے احرام باندھا تھا ) "

اور اسے حنوط لگاؤ"

اور ايك روايت ميں ہے:

" اسے خوشبو نہ لگاؤ"

اور اس كا سر ] اور چہرہ نہ [ ڈھانپو كيونكہ روز قيامت اسے تلبيہ كہتے ہوئے اٹھايا جائےگا"

اسے شيخين بخارى و مسلم نے صحيحين ميں اور ابو نعيم رحمہ اللہ تعالى نے المستخرج اور بيھقى نے روايت كيا ہے، اور زيادہ الفاظ بخارى ميں نہيں ہيں.

ھـ - جب اس كى موت واضح ہو چكى ہو تو پھر اس كى كفن دفن كى تيارى جلد كرنى چاہيے.

اس كى دليل ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى مندرجہ ذيل مرفوع حديث ہے:

" جنازہ ميں جلدى كرو اگر وہ نيك اور صالح ہے تو پھر تم اسے خير و بھلائى كى طرف لے جارہے ہو، اور اگر اس كے علاوہ كچھ اور ہے تو پھر تم اپنے كندھوں سے شر كو اتار رہے ہو"

صحيح بخارى و صحيح مسلم، اور يہ سياق مسلم شريف كا ہے، اور اسے سنن اربعہ نے بھى روايت كيا ہے، اور ترمذى اور احمد اور بيھقى نے كئى ايك طرق سے ابو ہريرہ ہى كى روايت سے صحيح قرارديا ہے.

و ـ ميت كو اسى شہر اورملك ميں دفن كريں جہاں وہ فوت ہوا ہے، اور اسے كہيں دوسرى جگہ منتقل نہ كريں، كيونكہ يہ جلدى كرنے كے منافى ہے جس كا حكم بھى ديا گيا ہے.

اس ليے كہ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا ايك بھائى جب وادى حبشہ ميں فوت ہو گيا تو اسے وہاں سے اٹھا ليا گيا تو وہ فرمانے لگيں:

" ميں اپنے دل ميں نہيں پاتى، يا مجھے افسوس ہے مگر يہى خواہش تھى كہ اسے اس كى جگہ ہى دفن كر ديا جاتا"

اسے بيھقى نے صحيح سند كے ساتھ روايت كيا ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " الاذكار" ميں كہتے ہيں:

" اور جب وصيت كى جائے كہ اسے دوسرے ملك اور علاقے ميں منتقل كيا جائے تواس كى وصيت پورى نہ كى جائے، كيونكہ صحيح اور مختار مذھب كے مطابق جس اكثر علماء قائل بھى ہيں اور محققون نے اس كى صراحت بھى كى ہے كہ ايك علاقے سے دوسرے علاقے ميں منتقل كرنا حرام ہے"

ز ـ ان ميں بعض افراد ميت كے مال سے اس كا قرض ادا كرنے ميں جلدى كريں، اگرچہ اس كا سارا تركہ ہى قرض كى ادائيگى ميں ختم ہو جائے، اور اگر اس نے مال نہ چھوڑا ہو اور قرض ادا كرنا مشكل ہو تو پھر حكومت كے ذمہ ہے كہ وہ اس كا قرض ادا كرے، اور اگر حكومت ادا نہيں كرتى اور بعض اقربا اور رشتہ دار تطوعا ادائيگى كرديں تو جائز ہے.

سعد بن اطول رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ان كا بھائى فوت ہو گيا اور اس نے تين سو درھم تركہ ميں چھوڑے اور اپنے پيچھے بچے اور عيال بھى چھوڑے، تو ميں نے يہ درھم ان پر خرچ كرنا چاہے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مجھے فرمايا:

" يقينا تمہارا بھائى اپنے قرض ميں جكڑا ہوا اور محبوس ہے، جاؤ جا كر اس كا قرض ادا كرو"

تو ميں نے جا كر اس كا قرض ادا كيا اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں نے اس كا قرض ادا كر ديا ہے صرف دو دينار باقى ہيں جن كا دعوى ايك عورت كر رہى ہے، اور اس كے پاس كوئى دليل نہيں، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اسے دے دو كيونكہ وہ حقدار ہے"

اور ايك روايت ميں ہے: " وہ سچى ہے"

اسے ابن ماجۃ اور احمد اور بيھقى نے روايت كيا ہے، اور اس كى ايك روايت صحيح ہے، اوردوسرى ابن ماجۃ كى سند كى طرح ہے، بوصيرى رحمہ اللہ تعالى نے الزوائد ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور سمرۃ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك نماز جنازہ پڑھايا"

اور ايك روايت ميں ہے كہ:

" جب نماز جنازہ ختم كى تو فرمايا: " كيا فلان خاندان والوں ميں سے كوئى شخص يہاں ہے؟

سب لوگ خاموش رہے، اور جب نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم ان سے ابتداء ميں خود كلام كرتے تو لوگ خاموش رہتے تھے، رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ كئى بار كہا، تين بار كہنے كے باوجود كسى نے جواب نہ ديا، تو ايك شخص كہنے لگا: وہ شخص يہ ہے.

راوى كہتے ہيں كہ وہ شخص اپنى تہہ بند كھينچتا ہوا لوگوں كے پيچھے سے كھڑا ہوا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:

" پہلى دونوں بار تجھے كس چيز نے مجھے جواب دينے سے منع كيا؟ "

ميں تو تمہارے ليے خير و بھلائى كے علاوہ كچھ ذكر نہيں كرتا، فلان شخص ( ان ميں سے ايك ) اپنے قرض ميں جنت سے محبوس ہے، اگر تم چاہو تو اسے چھڑا لو اور فديہ دو، اور اگر تم چاہو تو اسے اللہ تعالى كے عذاب كے سپرد كر دو"

سمرہ كہتے ہيں: ميں نے ديكھا كہ اس كے اہل وعيال اور جو اس كا خيال كرتے تھے انہوں نے اس كا قرض ادا كرديا

"حتى كہ كوئى بھى طلب كرنے والا باقى نہ رہے"

اسے ابو داود اور نسائى اور حاكم ، بيھقى، اور طيالسى نے اپنى مسند ميں اور اسى طرح احمد نے روايت كيا ہے، بعض نے شعبى عن سمرۃ سے اور بعض نے شعبى اور سمرۃ كے درميان سمعان بن مشنج كو داخل كر ديا ہے، اور يہ پہلى وجہ سے صحيح اور شيخين كى شرط پر ہے، جيسا كہ حاكم نے كہا ہے اور امام ذھبى نے اس كى موافقت كى ہے، اور دوسرى وجہ كے مطابق صرف صحيح ہے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ سب مومن مردوں اور عورتوں كى مغفرت فرمائے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

ماخذ: ماخوذ از: مختصر احكام الجنائز للالبانى ( كچھ كمى و بيشى كے ساتھ )