منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

وقف كے احكام

سوال

وقف كے مسئلہ ميں اسلامى حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

وقف كى تعريف:

اصل چيز روك كر اس سے حاصل ہونے والا نفع خرچ كرنا وقف كہلاتا ہے.

اصل سے مراد وہ چيز ہے جو بعينہ بچى رہے اور اس كا نفع خرچ كيا جا سكے، مثلا گھر، اور دوكانيں، اور باغات وغيرہ.

اور نفع سے مراد وہ غلہ ہے جو اصل سے حاصل ہو مثلا پھل اور اجرت اور گھروں ميں رہائش وغيرہ كرنا.

وقف كا حكم:

يہ ايسى نيكى ہے جو اسلام ميں مستحب ہے، اس كى دليل صحيح حديث ميں موجود ہے.

صحيحين ميں عمر رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ انہوں نے عرض كى اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے خيبر كا كچھ مال ملا ہے، مجھے اس سے بہتر مال كبھى حاصل نہيں ہوا، آپ اس كے متعلق مجھے كيا حكم ديتے ہيں:

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اگر تم چاہو تو اس كى اصل روكے ركھو اور اسے صدقہ كر دو، ليكن يہ ہے كہ اس اصل كو نہ تو ھبہ كيا جائے گا، اور نہ وہ وراثت بنے گا"

تو عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے اسے فقراء و مساكين اور رشتہ داروں اور اللہ كے راستے، اور مسافروں اور مہمانوں كے ليے وقف كر ديا.

اور امام مسلم رحمہ اللہ تعالى نے صحيح مسلم ميں نبى صلى اللہ عليہ وسلم سے حديث روايت كى ہے كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب آدم كا بيٹا فوت ہو جاتا ہے تو اس كے عمل رك جاتے ہيں، صرف تين قسم كے عمل جارى رہتے ہيں: صدقہ جاريہ، يا ايسا علم جس سے اس كے بعد نفع بھى حاصل كيا جاتا رہے، يا نيك اور صالح اولاد جو اس كے ليے دعا كرتى رہے"

اور جابر رضى اللہ تعالى عنہ كہتے ہيں كہ:

( رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام ميں سے كوئى بھى وقف كے علاوہ كسى كى بھى قدرت نہيں ركھتے تھے ).

قرطبى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( بلند و بالا عمارتيں اور خاص مساجد وقف كرنے ميں آئمہ كرام كے مابين كوئى اختلاف نہيں، اس كے علاوہ ميں ان كا اختلاف ہے ).

وقف كى شرائط:

وقف كرنے كے ليے شرط ہے كہ وہ جائز التصرف ہو، يعنى اس كا تصرف كرنا جائز ہو؛ وہ اس طرح كہ وقف كرنے والا شخص بالغ، آزاد، اور عقلمند و سمجھدار ہو، لھذا بچے، بيوقوف، اور غلام كا وقف صحيح نہيں ہو گا.

وقف دو امور ميں سے ايك كے ساتھ ہو گا:

پہلا: وقف پر دلالت كرنے والا قول؛ مثلا وہ يہ كہےكہ: ميں نے يہ جگہ وقف كى يا اسے مسجد بنايا.

دوسرا:

انسان كے عرف ميں وقف پر دلالت كرنے والا كام: مثلا اس شخص كى طرح جس نے اپنے گھر كو مسجد بنا ديا، اور اس ميں لوگوں كو نماز ادا كرنے كى عام اجازت دے دى، يا اس نے اپنى زمين كو قبرستان بنا كر لوگوں كو وہاں دفن كرنے كى اجازت دے دى.

وقف كے الفاظ كى اقسام:

پہلى قسم:

صريح الفاظ:

مثلا وہ يہ كہے كہ: وقفت ( وقف كرديا ) حبست، ( ميں نے روك ليا ) سبلت ( ميں نے اللہ كى راہ ميں خيرات كر ديا ) سميت ( ميں نے اللہ كےنام ديا ) يہ صريح الفاظ ہيں؛ كيونكہ وقف كے علاوہ كسى معنى كا احتمال نہيں؛ لھذا جب ان الفاظ ميں سے كوئى لفظ بھى ادا كيا تو اس كے ساتھ كوئى اور معاملہ زيادہ كيے بغير ہى وقف ہو جائے گا.

دوسرى قسم:

كنايہ كے الفاظ:

مثلا وہ يہ كہے: تصدقت ( ميں نے صدقہ كيا ) حرمت ( ميں نے حرام كيا ) ابدت ( ميں نے ہميشہ كرديا ) يہ كنايہ كے الفاظ ہيں، كيونكہ يہ وقف كے علاوہ دوسرے معنى كا بھى محتمل ہے.

لھذا جب بھى اس نے ان الفاظ ميں سے كوئى لفظ بولا تو اس كے ساتھ وقف كى نيت كى شرط لگائى جائے گى، يا اس كے ساتھ كوئى صريح لفظ بولا جائے گا، يا اس كے ساتھ كنايہ كےدوسرے الفاظ ميں سے كئى لفظ.

صريح الفاظ كے ساتھ ملا كر بولنے كى مثال يہ ہے كہ مثلا وہ اس طرح كہے:

تصدقت بكذا صدقۃ موقوفۃ او محبسۃ او مسبلۃ اور مؤبدۃ ( ميں نے وقف صدقہ كيا، يا روكا ہوا يا خيرات كيا ہوا، يا ہميشہ كے ليے)

اور كنايہ كا لفظ وقف كے حكم كے ساتھ ملانے كى مثال يہ ہے كہ وہ اس طرح كہے:

تصدقت بكذا صدقۃ لا تباع و لا تورث ( ميں نے ايسا صدقہ كيا جو نہ تو فروخت ہو سكتا ہے اور نہ ہى وراثت بن سكتا ہے ).

وقف صحيح ہونے كى شرائط:

اول:

جيسا كہ بيان كيا جا چكا ہے كہ وقف كرنے والا تصرف كرنے كا اہل اور مجاز ہو.

دوم:

وقف كى جانے والى چيز ايسى ہو جس كا فائدہ مستقل طور پر اٹھايا جائے، اور اس كى اصل باقى رہے؛ لھذا ايسى چيز وقف كرنى صحيح نہيں جو فائدہ حاصل كرنے كے بعد باقى نہ رہے، مثلا كھانا، اور غلہ وغيرہ

سوم:

وقف كى جانے والى چيز معين ہو؛ لھذا غيرمعين چيز وقف كرنا صحيح نہيں ہو گا، جيسا كہ كوئى يہ كہے:

ميں نے اپنے غلاموں اور عمارتوں ميں سے كوئى غلام اور گھر وقف كيا.

چہارم:

وقف نيكى پر ہو؛ كيونكہ وقف كا مقصد اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنا ہے؛ مثلا مساجد اور عمارتيں، اور رہائش گاہيں، اور كنويں اور نل وغيرہ، علمى كتب، مشكيں، لھذا نيكى كے علاوہ كسى اور كام كے ليے وقف كرنا صحيح نہيں؛ مثلا كفار كى عبادت گاہوں كے ليے وقف كرنا، اور ملحدوں زنديق اور بے دين لوگوں كى كتابيں، اور درباروں كى روشنى يا اسے تعمير كرنے كے ليے وقف كرنا، اور كيونكہ يہ سب كچھ معصيت و شرك اور كفر ميں معاونت ہے.

پنجم:

وقف كے صحيح ہونے ميں شرط ہے كہ اگر معين چيز ہو تو اس معين چيز كى ملكيت كا ثبوت ہونا شرط ہے، كيونكہ وقف ملكيت ہوتى ہے، لھذا جو مالك ہى نہيں اس پر وقف صحيح نہيں، مثلا ميت اور جانور.

ششم:

وقف صحيح ہونے ميں شرط يہ ہے كہ: وقف پورا ہو، لھذا معلق اور مؤقت وقف كرنا جائز نہيں، ليكن اگر كوئى اپنى موت كے ساتھ وقف معلق كرتا ہے تو يہ جائز ہو گا.

مثلا وہ يہ كہے: جب ميں مر جاؤں تو ميرا گھر فقراء پر وقف ہے.

اس كى دليل ابو داود كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے وصيت كى كہ اگر انہيں كوئى حادثہ پيش آ جائے تو ان كى سمغ نامى زمين صدقہ ہے.

اور يہ مشہور ہو گيا اور كسى نے بھى اس پر انكار نہيں كيا، تو يہ اجماع تھا، اور موت پر معلق وقف مال كے ثلث ميں سے ہونا چاہيے، كيونكہ يہ وصيت كے حكم ميں ہو گا.

اور وقف كے احكام ميں يہ شامل ہے كہ: وقف كرنے والے كى شرط كے مطابق اس وقف ميں كام كرنا واجب ہے، ليكن اگر شريعت كے مخالف ہو تو پھر نہيں، بلكہ اسے نيكى كے كام ميں صرف كيا جائے گا، اس ليے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسلمان اپنى شروط پر قائم رہتے ہيں، ليكن ايسى شرط جوحرام كو حلال ، يا حلال كو حرام كر دے" ( يعنى اس پر عمل نہيں ہو گا)

اور اس ليے بھى كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے وقف كيا اور اس كے ليے شرط بھى ركھى، اور اگر اس كى شرط پر عمل كرنا واجب نہ ہوتو اس ميں كوئى فائدہ ہى نہيں، اور اگر اس ميں اس نے مقدار يا مستحقين ميں سے كسى كو كسى ايك يا سب پر مقدم ركھنے كى شرط ركھى، يا مستحق ميں كسى وصف كے معتبر ہونے كى شرط لگائى، يا كسى وصف كے نہ ہونے كى شرط لگائى، يا وقف پر نگرانى كى شرط ركھى، يا اس كے علاوہ تو جب تك وہ شرط كتاب وسنت كے خلاف نہ ہو اس شرط پر عمل كيا جائے گا.

اور اگر وہ كوئى شرط نہ ركھے تو پھر مالدار اور فقير مرد و عورت، سب وقف كى گئى چيز ميں برابر ہونگے.

اور جب وقف كرنے والا وقف كے نگران كى تعيين نہ كرے، يا اس نے كسى شخص كو متعين كيا اور مر گيا، تو معين ہونے كى صورت ميں نگرانى ہو گى، اور اگر وقف كسى ادارے وغيرہ پر ہو يعنى مساجد يا ان كے ليے وقف ہو جن كا شمار ممكن نہ ہو مثلا مساكين، تو پھر نگرانى حاكم وقت خود كرے گا، يا جسے وہ مقرر كرے.

نگران كو اللہ تعالى كا ڈر اور تقوى اختيار كرتے ہوئے وقف كى نگرانى اچھے اور احسن انداز ميں كرنى چاہيے كيونكہ يہ اس كے ذمہ امانت ہے.

اور جب وہ اپنى اولاد پر وقف كرے تو اس كے مستحقات ميں مرد و عورت سب برابر ہونگے، كيونكہ يہ ان سب ميں مشتركہ ہے، اور شراكت كا اطلاق استحقاق ميں برابرى كا متقاضى ہے؛ جيسا كہ اگر اس نے ان كے ليے كوئى چيز مقرر كردى تو وہ ان كے مابين برابر ہو گى؛ تو اسى طرح جب اس نے ان پر كوئى چيز وقف كى، پھر اس كى صلبى اولاد كے بعد وقف ان كے بيٹوں كى اولاد پوتے پوتيوں ميں منتقل ہو جائے گا، نہ كہ بيٹى كى اولاد ميں، كيونكہ وہ تو كسى اور آدمى كى اولاد ميں سے ہيں، لھذا تواپنے باپ كى طرف منسوب ہونگے، اور اس ليے بھى كہ وہ مندرجہ ذيل فرمان بارى تعالى كے تحت نہيں:

فرمان بارى تعالى ہے:

اللہ تعالى تمہيں تمہارى اولاد كے بارہ ميں وصيت كرتا ہے.

اور كچھ علماء كرام ايسے بھى ہيں جو انہيں لفظ اولاد ميں شامل كرنے كى رائے ركھتے ہيں؛ كيونكہ بيٹياں بھى اولاد ہيں، تو اس طرح طرح اولاد كى اولاد اس كى حقيقى اولاد ہے. واللہ تعالى اعلم

اور اگر وہ يہ كہے: ميرے بيٹوں پر وقف ہے، يا فلاں كے بيٹوں پر، وقف كو ان كے صرف مردوں كے خاص كر ديا؛ كيونكہ لفظ بنين حقيقتا اسى كے وضع كيا گيا ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

كيا اس كى بيٹياں ہيں اور تمہارے ليے بيٹے.

ليكن يہ ہے كہ جن كے ليے وقف كيا گيا ہے اگر وہ قبيلہ ہو؛ مثلا بنو ہاشم، اور بنو تميم، تو اس ميں عورتيں بھى داخل ہونگى؛ كيونكہ قبيلے كا نام مردو عورت دونوں كو شامل ہے.

ليكن اگر اس نے جماعت، اور گروہ جن كا شمار ممكن ہو كے ليے وقف كيا؛ تو انہيں عام ركھنا، اور ان ميں برابرى قائم كرنا واجب ہے، اور اگر ان كا شمار ناممكن ہو مثلا بنو ہاشم، ار بنو تميم؛ تو پھر انہيں عام ركھنا واجب نہيں؛ كيونكہ يہ ناممكن ہے، اور ان كے بعض افراد پر ہى اقتصار كرنا، اور كچھ كو دوسروں پر فضيلت دينا جائز ہے.

اور وقف ايسى چيز ہے جوان معاہدوں ميں سے ہے جو صرق قول سے ہى لازم ہو جاتا ہے، جس كا فسخ كرنا جائز نہيں؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان:

" اس كى فروخت نہيں كى جائے، اور نہ ہبہ ہو گى اور نہ ہى وراثت بنے گى ".

امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: اہل علم كے ہاں اس حديث پر عمل ہے.

لھذا اس كا فسخ اور ختم كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ ہميشہ كے ليے ہوتا ہے، اور نہ ہى فروخت كيا جا سكتا ہے، اور نہ ہى آپس ميں اسے منتقل كيا جا سكتا ہے، ليكن اگر اس كا فائدہ مكمل طور پر تعطل كا شكار ہو جائے، مثلا گھر منہدم ہو گيا، اور وقف كى آمدن سے اسے تعمير كرنا ناممكن ہو، يا زرعى زمين خراب ہو جائے، اور بے آباد ہو جائے، جسے وادى كے كناروں كے ساتھ آباد كرنا بھى ناممكن ہو، يا وقف كى آمدن ميں بھى اتنا كچھ نہ ہو جو اسے آباد كر سكے، تو اس حالت ميں ہو جانے والا وقف فروخت كر ديا جائے گا، اور اس كى قيمت اسى طرح كے وقف ميں صرف كى جائے گى؛ كيونكہ يہ وقف كرنے والے كے مقصد كے زيادہ قريب ہے، اور اگرمكمل اس جيسے كا حصول ناممكن ہو، تو پھر اس سے ملتے جلتے ميں صرف كر ديا جائے؛ اور اس كے بدلے ميں دوسرى چيز صرف خريدنے سے ہى وقف بن جائے گى.

اور اگر وقف مسجد ہو تو وہ اسى جگہ ميں معطل رہے گى، مثلا كہ اگر وہ محلہ خراب ہو گيا اور منہدم ہو گيا، تو پھر وہ فروخت كر كے كسى دوسرى مسجد ميں اس كى قيمت صرف كر دى جائے گى.

اور اگر كسى مسجد كے ليے وقف ہو، اور اس كى آمدن مسجد كى ضروريات سے زيادہ ہو تو اس آمدن كو دوسرى مسجد ميں صرف كرنا جائز ہے؛ كيونكہ اس سے فائدہ اسى جنس ميں ليا جارہا ہے جس ميں وہ وقف كيا گيا تھا، اور مسجد كے ليے وقف كردہ چيز كى مسجد كى ضروريات سے زيادہ آمدن كو مساكين پر صدقہ كرنا جائز ہے.

اور جب كسى معين پر وقف كيا جائےمثلا يہ كہے كہ: يہ زيد پر وقف ہے، اسے اس ميں سے ہر برس ايك سو ادا كيا جائے، اور وقف كى آمدن ميں اسقدر ہو بھى؛ تو زائد كے انتظار كى تعيين ہو جائے گى.

شيخ تقى الدين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( اگر يہ معلوم ہو جائے كہ اس كى آمدن اور غلہ ہميشہ زيادہ ہوتا ہو؛ تو اسے صرف كرنا واجب ہے؛ كيونكہ اسے باقى ركھنا اس كے خراب اور ضائع ہونے كا باعث ہے ).

اور جب مسجد پر وقف كيا گيا ہو تو وہ خراب اور ضائع ہو جائے، اور وقف سے مسجد پر كچھ صرف كرنا مشكل ہو تو اس طرح كى مسجد ميں صرف كر ديا جائے گا .

ماخذ: الملخص الفقھى للشيخ صالح آل فوزان صفحہ نمبر ( 158 )