جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

ایک عورت اپنے خاوندکی وفات پر بہت زیادہ غمزدہ ہونے کی وجہ سے اب شادی نہیں کرنا چاہتی، تا کہ جنت میں وہ اسی کی بیوی ہو۔

137217

تاریخ اشاعت : 29-07-2015

مشاہدات : 12154

سوال

سوال: میں نوجوان لڑکی ہوں، میرے والد کئی سال پہلے فوت ہوگئے تھے، اور انکی وفات کے کچھ دیر بعد میری شادی ہوئی، پھر میرا خاوند بھی فوت ہو گیا -اللہ تعالی سب پر رحم فرمائے- مجھے ان سے اللہ کیلئے محبت تھی؛ کیونکہ میرے مطابق -باقی اللہ بہتر حساب لینے والا ہے- دونوں نیک انسان تھے۔
میرا سوال یہ ہے کہ : کیا میرے لیے شادی سے انکار کرنا جائز ہے؟ یہ بھی واضح رہے کہ میری عمر ابھی بہت چھوٹی ہے، لیکن اللہ کے حکم سے میں انکے فراق پر صبر کرونگی۔ شادی سے انکار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ : میں نے سنا ہے کہ عورت جنت میں اپنے آخری خاوند کے ساتھ ہوگی۔
میں اپنے گھر والوں کو یہ بھی کہتی ہوں کہ: میں شادی نہیں کرنا چاہتی ، ہاں اگر کوئی شخص میرے پہلے شوہر سے اچھا ہو تو الگ بات ہے، میں اپنی اس بات کی تائید اس آیت سے لیتی ہوںأَتَسْتَبْدِلُونَ الَّذِي هُوَ أَدْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرٌ کیا تم اچھی چیز کے بدلے گھٹیا چیز لینا چاہتے ہو؟! [البقرة : 61]
اور آخری بات یہ ہے کہ: میں آپ سے مشورہ اور نصیحت لینا چاہتی ہوں؛ کیونکہ میری تعلیم مکمل ہونے والی ہے، اور فراغت کی وجہ سے مجھے کچھ خدشات لاحق ہیں، کہ کہیں شیطانی وسوسے اور فضول باتوں میں کہیں گم نہ ہو جاؤں، تو فراغت سے بچنے کے لئے کیا آپ مجھے کسی نوکری کی تلاش کا مشورہ دینگے؟ یہ واضح رہے کہ میں نے سائنس ڈیپارٹمنٹ سے گریجویشن مکمل کی ہوئی ہے، اور میں الحمد للہ، قرآن مجید کی حافظہ بھی ہوں، اور قرآن مجید یاد رکھنے کیلئے اس کی دہرائی بھی مسلسل کرتی ہوں، ساتھ میں کتب حدیث کا مطالعہ بھی کرتی ہوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اللہ تعالی [میت پر صبر کی وجہ سے] آپکو ڈھیروں اجر سے نوازے، آپ کے فوت شدہ اقارب پر رحم فرمائے، اور آپکو مزید صبر  عنایت فرمائے، نیز  آپ کو پہلے سے بھی اچھا خاوند  عطا فرمائے۔

یہ ذہن نشین  رہے کہ: یہ دنیا آزمائش اور امتحان کی جگہ ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
(وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الأمْوَالِ وَالأنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ [155] الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ [156] أُولَئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَاتٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ)
ترجمہ: اور ہم ضرور تمہاری آزمائش کریں گے دشمن کے ڈر، بھوک، مال و جان اور پھلوں کی کمی سے اور صبر کرنے والوں کو خوش خبری دیجئے [155]جنہیں جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ یقیناً ہم تو اللہ تعالیٰ کے ہیں اور یقیناً ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں [156] انہی پر ان کے رب کی عنایات اور رحمتیں ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں [ البقرة: 155 – 157]

اسی طرح فرمایا:
لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْتمہیں ضرور اپنے اموال اور جانوں کے بارے میں آزمایا جائے گا۔ [آل عمران : 186]

اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یعنی: یہ بات لازمی ہے کہ مؤمن کو مالی، جانی، یا اہل و عیال کے بارے میں ضرور آزمایا جاتا ہے، مزید برآں مؤمن  کی دینداری کے مطابق ہی آزمائش کی جاتی ہے، جتنی دینداری مضبوط ہوگی، اتنی ہی  آزمائش زیادہ ہوگی"
"تفسير ابن كثير" (2/179)

اللہ تعالی نے صبر کرنے والوں کیلئے عظیم اجر بھی تیار فرمایا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
(إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ)
ترجمہ: صبر کرنے والوں کو  بے حساب اجر  دیا جائے گا۔[الزمر:10]
لہذا ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی آپکو صبر کرنے والوں میں شامل فرما لے، اور آپ کو ڈھیروں اجر  سے نوازے۔

دوم:

علمائے کرام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ اگر عورت  ایک سے زائد  شادی کرے تو جنت میں کس خاوند کیساتھ ہوگی، تو اس بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ: عورت کو اختیار دیا جائے گا، کچھ نے یہ کہا ہے  کہ: سب سے اچھے اخلاق  کے مالک خاوند کیساتھ ہوگی، جبکہ راجح موقف تیسرا ہے کہ : ایسی خاتون اپنے آخری خاوند کیساتھ ہوگی۔

مزید تفصیلات کیلئے آپ سوال نمبر: (8068) کا جواب ملاحظہ کریں۔

سوم:

یہ بات مسلّم ہے کہ عقلمند مسلمان دین و دنیا کیلئے افضل اوربہتر ہی کی تلاش میں  رہتا ہے، چنانچہ مستقبل میں جس خاوند کی آپکو تلاش ہے، وہ آپ کے پہلے خاوند سے بہتر ہو، یہ اچھی سوچ ہے، جس کے بارے میں شریعت و انسانی عقل دونوں ترغیب بھی دلاتی ہیں۔

البتہ آپ کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہونا کہ آپ کے پہلے خاوند سے اچھا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے آپ بیوہ ہی زندگی گزاریں گی، یہی خیال آپ سے بھی بہتر شخصیت کے ذہن میں بھی آیا تھا، اور وہ تھی ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا، تا ہم جب انہوں نے شریعت الہی کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا، اور حدیث میں ثابت یہ دعا  پڑھی کہ اللہ تعالی انہیں بہتر متبادل  عطا فرمائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منگنی کا پیغام بھیج دیا، اور آخر کار آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے خاوند بن گئے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر اس روئے زمین پر کوئی بشر نہیں ہے۔

چنانچہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (جو کوئی بھی مسلمان  کسی بھی مصیبت کے پہنچنے پر حکم الہی کے مطابق یہ کہے: " إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ، اللَّهُمَّ أْجُرْنِي فِى مُصِيبَتِي وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا "[بیشک ہم اللہ کیلئے ہیں، اور اسی کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے، یا اللہ! مجھے میری مصیبت کے بدلے اجر دے، اور مجھے اس سے بھی بہتر  عطا فرما] تو اللہ تعالی اسے اس سے بھی بہتر عطا فرماتا ہے) ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: جس وقت ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے، تو میں نے کہا: "مسلمانوں میں سے ابو سلمہ سے اچھا کون ہے؟ وہ سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کر کے آنیوالے تھے، [پھر بھی میں نے یہ الفاظ کہہ دیے] تو اللہ تعالی نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عطا فرما دیے" مسلم: (918)

تو آپ کیلئے مشورہ اور نصیحت  یہ ہے کہ آپ حدیث میں ثابت شدہ یہ دعا  پڑھیں، اور ساتھ میں یہ بھی پختہ یقین رکھیں کہ زمین پر موجود اچھے لوگ ختم نہیں  ہوئے،  بلکہ  اب بھی بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو دیندار اور با اخلاق ہیں،  چنانچہ  ایسا بھی ممکن ہے کہ جلد ہی ان اچھے لوگوں  میں سے ایک شخص آپکو خاوند کی شکل میں مل جائے، جو آپ کیلئے عفت کا باعث بنے، اور آپ اس کیلئے عفت کا باعث بنیں،  اس طرح دونوں مل کر ایک اچھے خاندان کی بنیاد رکھیں، جو دین الہی کیلئے کام کرے، اور آپ دونوں کو نیک اولاد میسر آئے، جو آپکی  آنکھوں کی ٹھنڈک بنے، اور یوم آخرت  کیلئے ذخیرہ بھی ہوں۔

چہارم:

یہ بات ذہن  میں نقش کر لیں کہ شادی کے بغیر  زندگی گزارنا شریعت میں پسندیدہ عمل نہیں ہے، اور نہ ہی اس کے بارے میں شریعت نے کبھی ترغیب دلائی ہے، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کے اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت رکھنے والے کو شادی کرنے کا حکم دیا ہے، خصوصاً نوجوانوں کو، -آپ ابھی  نوجوان ہی ہیں- اس کی وجہ  یہ ہے کہ شادی  میں بہت ہی زیادہ فوائد ہیں، اور اس کے عظیم مقاصد ہیں، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

- نیک اولاد کا حصول

- نئے مسلمان گھرانے  کا اضافہ

- برے کاموں میں ملوّث ہونے سے مکمل تحفظ

- شیطانی ہتھکنڈوں سے مکمل بچاؤ

- شادی کے ذریعے مسلمانوں کے درمیان مضبوط  رشتہ داری 

چنانچہ شادی کے بارے میں ہمارا مشورہ یہی ہے کہ آپکو اگر کسی ایسے مرد کی طرف سے شادی کا پیغام ملے جس کی دینداری اور اخلاقیات آپکو پسند ہوں تو شادی کا پیغام قبول کر لیں، اور عین ممکن ہے کہ آخرت میں بھی آپ اسی کی بیوی ہونگی جس کا اخلاق اور دینی رجحان  اچھا ہوگا۔

اس لیے آپ نئے اور نیک گھرانے  کی بنیاد رکھنے میں ذرا برابر بھی تامل مت کریں، جو آپ کو برائیوں سے بھرے ہوئے معاشرے میں بھی حرام شہوت سے تحفظ بھی فراہم کریگا۔

اور آپکو معلوم ہے کہ معاشرے میں موجود برائیاں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ شادی شدہ افراد بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکے، تو جس کی شادی ہوئی ہی نہ ہو، اور ساری زندگی شادی کے بغیر گزارنے کی سوچے تو وہ ان برائیوں سے کیسے محفوظ رہ سکتا ہے؟!

پنجم:

گھر سے باہر نکل کر عورت کیلئے کام کرنا اصولی طور پر حکم الہی سے متصادم ہے، کیونکہ اللہ تعالی خواتین کو گھر میں رہنے کا حکم دیا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:
(وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ) اور تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو[ الأحزاب:33]
لہذا بغیر کسی وجہ اور ضرورت کے گھر سے باہر نکلنا اس فرمانِ باری تعالی سے متصادم ہے۔

اس بارے میں مزید اصول و ضوابط ، اور ایک خاتون کیلئے گھر سے باہر کام کرنے کیلئے شرائط کے متعلق تفصیلی گفتگو سوال نمبر: (22397)  کے جواب میں ملاحظہ کریں۔

یقینی بات ہے کہ آپ  کسی جگہ ملازمت کر کے فراغت ، اور سستی سے  بچنا چاہتی ہیں، تا کہ شیطانی وسوسوں  کے راستے بند ہو جائیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گھر سے باہر نکل کر ملازمت کرنا بھی  ایک شیطانی ہتھکنڈہ ہے، کہ آپ کو مختلف آزمائشوں، اور اجنبی مردوں کیساتھ مل کرکام کرنا پڑے گا، اور اس کے علاوہ دیگر حرام کاموں کا بھی خدشہ  رہے گا۔

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آپ فراغت و سستی سے بچنے کیلئے مناسب شخص کیساتھ شادی  کر لیں، اور اپنے آپ کو ایک نئے خاندان کی بنیاد رکھنے میں مصروف کریں، اس  کیلئے آپ  اپنے خاوند  کے حقوق ادا کریں، اور بچوں کی اچھی تربیت کا مکمل خیال کریں، جن کی وجہ سے آپکی زندگی میں رنگ اور خوشی و مسرت  بھر جائے گا؛ کیونکہ  خاتون  خوشحال زندگی گزارنے کیلئے جتنے مرضی  اسباب و ذرائع اپنا لے، اسے خوشحالی  صرف اپنے رب کی اطاعت میں ہی ملے گی، اور پھر   اس کے بعد خوشی  خاوند اور بچوں کے ساتھ ہی ملتی ہے۔

ملازمت کا  نتیجہ  کیا نکلتا ہے؟ صرف تھکاوٹ، اور اکتاہٹ،  مزید اطمینان کیلئے آپ ان خواتین سے استفسار کریں جو ملازمت  سے منسلک ہیں، کہ وہ اپنے گھروں میں رہنے کی کتنی تمنا کرتی ہیں، چند ایک ہی ایسی ہونگی جو اپنی انانیت اور تکبر کی وجہ سے حقائق تسلیم نہ کریں۔

اللہ تعالی بہت ہی باحکمت اور علم رکھنے والی ذات ہے،  اللہ تعالی نے خواتین کو گھر میں رہنے  کا حکم اسی لیے دیا ہے کہ  اللہ تعالی جانتا ہے کہ یہی حکم خواتین کیلئے مناسب ہے،  نیز صنف نازک  کے تحفظ اور  پاکدامنی کیلئے یہی  بہتر ہے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپکو نیک خاوند عطا فرمائے، صالح اولاد سے نوازے، اور دین الہی   کی تعلیم اور سیکھنے پر  مکمل مدد فرمائے، اور آپکو شیطانی وسوسوں سے محفوط رکھے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب