جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

كيا دادي كا والدين كي موجودگي ميں اپنےپوتوں كےليےوصيت كرنا جائز ہے

13749

تاریخ اشاعت : 27-08-2004

مشاہدات : 3834

سوال

احكام وراثت كےمتعلق سوالات :
ميري والدہ كوطلاق ہوئي اور انہوں نےدوبارہ شادي كرلي ، اور انہيں پہلي شادي كي بنا پرنہ كہ دوسري سے كچھ مال حاصل ہوا جووہ اپنےعزيز واقارب كےليے چھوڑ جائيں گي .
1- ميري والدہ كا صرف ايك ہي بيٹا ہے ( پہلےخاوند سے ميں ہي اكيلا ہي بيٹا ہوں ) اور خاوند اور دوپوتے اور كئي ايك بہن بھائي ہيں ان ميں سےايك بھائي اسي ملك ميں جہاں ميري والدہ رہتي ہيں رہائش پذير ہے ( امريكہ ميں )
2- وراثت كےاحكام كي جومجھےمعلومات ہيں اس كےمطابق ميري والدہ كويہ حق ہے كہ وہ ايك تہائي سےزيادہ كسي بھي راہ ميں جسے وہ مناسب سمجھيں اور وہ اسلام كےمخالف نہ ہوميں تقسيم كرسكتي ہيں .
اس ايك تہائي ( يااس سےكم ) كي تقسيم كےبعد ميرے علم كےمطابق اس كا نصف بيٹے كےليے اور چوتھا حصہ موجودہ خاوند كےليے ملےگا ، تو كيا يہ صحيح ہے ؟
3- كيا اس كےعلاوہ بھي كوئي رشتہ دار ہے جوميري والدہ كا وارث بنےگا ؟
ميري والدہ نے تہيہ كر ركھا ہےكہ وہ ابني ممتلكات كو دو قسموں ميں تقسيم كريں گي ، ايك قسم ميرے ليے اور دوسري قسم اپنے دونوں پوتوں كےليے ، ليكن ميں نے انہيں بتايا ہے كہ ميں يہ تاكيد كرنا چاہتا ہوں كہ آيا آپ كا يہ فعل اسلامي طريقہ كےمطابق صحيح ہے كہ نہيں ، اسي بنا پر ميں يہ سوال كررہا ہوں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ

اس سوال ميں كئي ايك بحثيں ہيں :

اول :

اس حالت ميں وراثت ميں كون حق ركھتا ہے :

ماں باپ ، خاوند بيوي ، اور بيٹے اگريہ موجود ہوں تو كوئي بھي محروم نہيں ہوگا ، بلكہ ان ميں سےہر ايك اللہ تعالي كي جانب سے مقرر كردہ حصہ حاصل كرےگا ، اور اگر بيٹوں كےساتھ بيٹياں بھي ہوں توعصبہ كي بنا پر دولڑكيوں مثل ايك لڑكا كےحساب سے وارث بنيں گي .

اور آپ كےاس مسئلہ ميں مندرجہ ذيل ورثاء كا وراثت ميں حق ہے :

خاوند : بيٹا موجود ( فرع وارث ) ہونے كي بنا پر خاوند كوچوتھا حصہ ملےگا .

بيٹا : باقي تركہ اسےملےگا كيونكہ وہ عصبہ ہونےكي بنا پر وارث بن رہا ہے .

بہن اور بھائي : بيٹا موجود ہونے كي بنا پريہ محروم رہيں گے اوران كا وراثت ميں كوئي حق نہيں ہوگا .

دوم :

وارث كےليے وصيت كا حكم :

كسي بھي وارث كےليے وصيت كرنا جائز نہيں كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہےكہ آپ نےفرمايا :

( بلاشبہ اللہ تعالي نےہرحقدار كواس كا حق ادا كرديا ہے اور وارث كے ليے وصيت نہيں ) سنن ترمذي الوصايا ( 2047 ) علامہ الباني رحمہ اللہ تعالي نے سنن ابوداود ( 1722 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے .

شيخ تقي الدين كہتے ہيں ( اس پر امت متفق ہے )

ليكن اگر ورثاء اس كي اجازت دے ديں تواس حالت ميں وصيت صحيح ہوگي اور يہ وصيت ان كي اجازت پر موقوف ہوگي .

سوم :

وصيت معتبر ہونے كا وقت :

وصيت موت كي حالت ميں معتبر ہوگي .

امام موفق كہتے ہيں : موت كي حالت ميں وصيت معتبر ہونے كے بارہ ميں اہل علم كےمابين اختلاف ہونےكا ہميں كوئي علم نہيں . ديكھيں : الملخص الفقھي للفوزان ( 2 / 174 ) .

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں : علماء اس پرمتفق ہيں كہ جس كےليے وصيت كي گئي ہے وہ وصيت كرنےوالےكي موت كےدن وارث شمار ہوگا ، حتي كہ اگر اس نےاپنےبھائي كےليے وصيت كي ہو وہ اس طرح كہ وصيت كرنےوالےكا كوئي بيٹا نہ ہوجومذكورہ بھائي كومحروم كردے تواس كي موت سےقبل بيٹا پيدا ہوگيا تووہ بھائي كومحروم كردےگا تو مذكورہ بھائي كےليے وصيت صحيح ہے ، اور اگر اس نےبھائي كےليے وصيت كي اوروصيت كرنےوالےكا بيٹا تھا تووہ بيٹا وصيت كرنےوالے كي موت سے قبل فوت ہوگيا تويہ وصيت وارث كےليےہے . اھ

تواس بنا پر آپ كي والدہ كےليے اپنےپوتوں ( آپ كي اولاد ) كےليے وصيت كرني جائز ہے جب تك ان كا وصيت ميں كوئي حق نہيں ، اور اسي طرح وہ اپنےبہن بھائيوں كےليے بھي وصيت كرسكتي ہے ليكن اس ميں شرط يہ ہے كہ وہ وصيت ايك تہائي سےزيادہ نہ ہو كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

( ايك تہائي اور ايك تہائي حصہ بہت ہے ) صحيح بخاري الوصايا ( 2538 ) .

رہا مسئلہ زندگي ميں ہي عطيہ كرنا تو يہ ہبہ وہديہ ہے اس كي تفصيل معلوم كرنے كےليے آپ سوال نمبر ( 10447 ) كےجواب كا ضرور مطالعہ كريں .

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد

متعلقہ جوابات