ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

حرام کام کے وقوع سے خوفزدہ کا تعلیم کے سبب سے شادی میں تاخیر کرنے کا حکم

14090

تاریخ اشاعت : 20-12-2003

مشاہدات : 6966

سوال

میری پرورش نصرانی معاشرہ میں ہوئي ہے اوراسلام کو پڑھنے کے بعد اسلام قبول کیا ہے ، قبول اسلام سے قبل میں نے ایک گنہگار اورنافرمان شخص کو اپنے سے کھیلنے کی اجازت دی تھی ، لیکن اس کے بعد میں نے اس سے توبہ کرلی ہے اورمیں نے اسے اپنے ساتھ لگنے یا پھر غیرمناسب کلام کرنے کی بھی اجازت نہیں دی اوراب وہ بھی اس سے توبہ کرچکا ہے ۔
اس کے گھر والے اسلام سمجھنے اورقرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے میں میری معاونت کررہے ہیں ، اس شخص نے مجھ سے شادی کرنے کا کہا ہے لیکن اس کے گھر والے کہتے ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے تک انتظار کرو ، تو کیا ہمیں منگنی اس کی گریجویشن مکمل ہونے تک مؤخر کردیں یا کہ اسی حالت میں منگنی کرلینی چاہیے ؟
میرے علم میں ہے کہ افضل اوربہتر تویہی ہے کہ ہم شادی کرلیں تا کہ دوبارہ گناہ میں نہ پڑیں ، اگرچہ ہم ایک دوسرے کو نہ بھی دیکھیں مجھے خدشہ ہے کہ کہیں حرام کام میں نہ پڑ جاؤں کیونکہ شیطان ہمارے ذھنوں میں یہ کام مزین کرکے رکھ دے گا ۔
میں اس مسلمان گھرانے کا احترام بھی کرتی ہوں کیونکہ یہی ایک مسلمان گھرانہ ہے جسے میں جانتی ہوں ، میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ میرا تعاون کریں میں حرام کام میں نہيں پڑنا چاہتی ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس اللہ رب العزت کی تعریف اورشکر ہے جس نے آپ کودین اسلام قبول کرنے کی توفیق عطافرمائی ، اورآپ پر یہ عظیم نعمت کی ہم اللہ تعالی سے آپ کی ثابت قدمی کے لیے دعا گو ہیں ، آپ پر یہ بھی اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے کہ اسلام سے پہلے جو بھی گناہ ہیں وہ اسلام قبول کرنے کے بعدمعاف ہوجاتے ہیں اوراسلام انہیں ختم کردیتا ہے ، ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ آپ اورہر توبہ کرنے والے کی توبہ قبول فرمائے ۔

منگنی اورشادی کے بارہ میں ہماری آپ اور اس نواجوان کویہی نصیحت ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو سکے آپ شادی کرلیں اورخاص کر جب آپ کو حرام میں پڑنے کا خدشہ ہے ، تو اس حالت میں تو شادی تعلیم پر بھی مقدم ہوگی ، اورپھرجب آپ دونوں کی رغبت بھی یہی ہے ، اس لیے نوجوان کو چاہیے کہ وہ اپنے گھروالوں کو اس پر راضی کرنے کی کوشش کرے ۔

اورانہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد دلائے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمايا :

( اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جو بھی شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ شادی کرے ، اس لیے کہ وہ آنکھوں کونیچا کرتی ہے اورشرمگاہ کی محافظ ہے ، اورجس میں شادی کرنے کی طاقت نہيں اسے روزے رکھنے چاہییں کیونکہ روزے اس کے لیے ڈھال ہیں ) ۔صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5065 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1400 ) ۔

اوروہ اپنے گھر والوں کویہ بھی یاد دلائے کہ اس وقت فتنہ بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے مسلمان پر واجب ہے کہ وہ ہر شرعی وسیلہ استعمال کرتے ہوئے ان فتنوں سےبچنے کی کوشش کرے ، اوراس میں کوئي شک نہیں کہ ان فتنوں سے بچنے کے لیے مشروع وسائل میں سے سب سے افضل ترین وسیلہ شادی ہی ہے ، بلکہ علماء کرام نے تو بالنص یہ کہا ہے کہ ایسی حالت میں شادی کرنا واجب ہوجاتی ہے ۔ دیکھیں : المغنی لابل قدامہ ( 9 / 341 ) ۔

اوراس کے لیے یہ بھی کافی ہے کہ ابھی آپ شرعی طور پر جس میں پوری شرعی شروط اورگواہوں کی موجودگي میں عقد نکاح پر ہی اکتفاء کرلیں اور رخصتی اورولیمہ کو مؤخر کرلیں ، اس لیے کہ عقدنکاح کی بنا پر آپ دونوں خاوند اوربیوی بن جائيں گے جس سے آپ کے لیے خلوت وغیرہ جائز ہوگی ۔

اگرایسا ہوجائے تو یہ بہتر ہے ، اوراگر پھر بھی اس کے گھر والے انکار پر مصر ہوں اوراس نوجوان کو حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ اس میں اگراتنی استطاعت ہو تو اس پر شادی کرنا واجب ہے چاہے اس میں وہ اپنے والدین کی اجازت نہ بھی حاصل کرے ، اوراسے اپنے گھروالوں کوحتی الوسع اس شادی پر راضي کرنے کو کوشش کرنی چاہیے ، لیکن اگر وہ ایسا کرنے سے عاجز ہو توپھریا تو آپ صبر کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے اس سے معاونت حاصل کریں اورروزے رکھیں ۔

اور فتنے اورشھوات والی اشیاء سے اجتباب کرتے ہوئے دور رہيں ، حتی کہ اللہ تعالی آپ دونوں کو بھلائی اورخیر پر جمع کردے ، اوراگر ایسا نہیں کرسکتیں توپھر آپ کے شرعی ولی پر ضروری ہے کہ وہ کوئي اورنیک اورصالح شخص تلاش کرکے آپ کی شادی کردے تا کہ آپ حرام کام میں پڑنے سے بچیں ۔

یہاں پر ایک تنبیہ کرنا ضروری ہے کہ جب تمہاری شرعی طور پر منگنی ہوچکی ہو تو اس وجہ سے آپ دونوں کا آپس میں خلوت میں بیٹھنا یا ایک دوسرے سے لمس کرنا اوراکٹھے گھومنے کے لیے نکلنا یا پھر بغیر کسی ضرورت کے بات چیت کرنا جائز نہیں کیونکہ آپ کا عقد نکاح نہیں ہوا اورایک دوسرے سے اجنبی ہیں لیکن جب نکاح ہوجائے پھر آپ ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں چاہے رخصتی نہ بھی ہوئي ہو ۔

آپ عقد نکاح کی شروط دیکھنے کے لیے سوال نمبر ( 2127 )  کے جواب کا مطالعہ کریں ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہيں کہ وہ آپ کے لیے بھلائي اورخیر میں آسانی پیدا فرمائے اورآپ دونوں سے برائي اورفحاشی کو دور رکھے ، آمین ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد