جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ڈراموں ميں صحابہ كرام كى شخصيت كى اداكارى كرنے كا حكم

14488

تاریخ اشاعت : 23-07-2007

مشاہدات : 8969

سوال

فلموں اور ڈراموں ميں صحابہ كرام كى شخصيات كى اداكارى كرنے كے جواز كے متعلق ميرا كچھ لوگوں كے ساتھ اختلاف ہو گيا، جيسا كہ اس وقت كثرت سے موجود ہيں، اس كى كلام تھى كہ اس ميں مصلحت ہے اور يہ اسلام كى دعوت اور مكارم اخلاق كےاظہار كا وسيلہ ہے، تو اس كے متعلق آپ كى رائے كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اسلام ميں صحابہ كرام كو بہت زيادہ عزت و شرف حاصل ہے كيونكہ انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ وقت گزارا ہے اور ان كى صحبت ميں رہے ہيں، اور انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى مدد و نصرت كا حق ادا كيا ہے، اور انہوں نے اپنا جان و مال اللہ كى راہ ميں خرچ كر ديا، اس ليے اہل علم كا اتفاق ہے كہ صحابہ كرام اس امت سے بہتر اور افضل ہيں، اور اللہ تعالى نے انہيں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى صبحت كى بنا پر شرف و مقام سے نوازا ہے، اور اپنى كتاب عزيز ميں ان كى تعريف ان الفاظ ميں كى ہے:

محمد ( صلى اللہ عليہ وسلم ) اللہ تعالى كے رسول ہيں، اور جو لوگ ان كے ساتھ ہيں، وہ كفار پر بہت سخت ہيں، اور آپس ميں رحمدل، آپ انہيں ركوع و سجود كرتے ہوئے، اللہ تعالى كا فضل اور اس كى رضامندى تلاش كرتے ديكھيں گے، سجدوں كے اثرات ان كے چہروں ميں ہيں الفتح ( 29 ).

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى صحابہ كرام كى تعريف كرتے ہوئے فرمايا:

" ميرى امت كا بہترين دور ميرا دور ہے، پھر ان كا دور جو ان سے مليں ہوں، اور پھر ان كا دور جو ان سے ملے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3650 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2535 ).

اور جو شخص بھى ان كى عزت ميں كمى كرے، يا ان كا استھزاء و مذاق اڑائے اور انہيں سب و شتم كرے تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں وعيد سناتے ہوئے فرمايا:

" جس نے بھى ميرے صحابہ كو گالى دى اور سب و شتم كيا تو اس پر اللہ تعالى، اور فرشتوں، اور سب لوگوں كى لعنت ہو "

السلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ حديث نمبر ( 2340 ).

اور كسى بھى صحابى كى زندگى كو ڈرامہ يا سينمائى فلم كى شكل ميں بنانا اس تعريف كے منافى ہے جو اللہ تعالى نے ان كى تعريف كى ہے، اور ايسا كرنے ميں ان كے اعلى مرتبہ اور شرف ميں كمى كرنا ہے جو اللہ تعالى نے انہيں نوازا ہے.

كيونكہ ان ميں سے كسى ايك صحابى شبيہ اور شكل بنانے ميں ان سے مذاق اور استھزاء ہے، اور وہ اداكار ان كا كردار ادا كرينگے جن كى اپنى زندگى اسلامى احكام كے مطابق نہيں، اور نہ ہى وہ متقى و پرہيزگار ہيں اور ان كے اخلاق بھى اسلامى نہيں، اس كے ساتھ ڈرامہ سازى كرنے والے اسے مالى كمائى كا وسيلہ بنائنگے، چاہے جتنا بھى بچاؤ ہو پھر بھى يہ ڈرامہ جھوٹ اور غيبت پر شامل ہو گا.

اسى طرح ڈرامہ اور فلم ميں صحابہ كرام كا كردار كرنا مسلمانوں كے دلوں ميں ان كے مقام و مرتبہ كو كم كرنے كا باعث ہو گا، اور مسلمانوں كے ليے ان كے دين ميں شكوك كا پيش خيمہ ہوگا، اور يہ بھى ضرورت پيش آئيگى كہ كوئى ايك اداكار ابو جہل كا كردار بھى ادا كريگا، اور اس جيسے دوسرے كفار كا موقف بھى اپنائيگا، اور اس كى زبان سے بلال رضى اللہ تعالى عنہ كو گالى بھى نكلےگى، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بھى ( نعوذ باللہ من ذالك ) اور اسى طرح رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جو اسلام پيش كيا ہے اس كو بھى برا كہےگا، بلا شك و شبہ يہ بہت ہى برا اور عظيم گناہ ہے.

اور اس ميں جو اسلام كى دعوت، اور مكارم اخلاق كا اظہار، اور محاسن و آداب پيش كرنے كى مصلحت كا كہا جاتا ہے، يہ غير مسلم ہے، كيونكہ جو شخص اداكاروں كے حالات سے واقف ہے، اور اس سے جو ان كا ہدف اور ٹارگٹ ہوتا ہے، وہ يہ جان ليتا ہے كہ يہ ايك ڈرامہ ہے تو وہ اداكاروں كى اداكارى اور ڈرامہ سازى كا انكار كرےگا، اور وہ ان كى حالت اور زندگى اور ان كے اعمال كا بھى انكار كريگا.

اور شريعت اسلاميہ ميں اصول و قواعد مقرر ہيں ان ميں يہ بھى ہے كہ: جب كسى چيز ميں مصلحت بھى ہو اور فساد و خرابى بھى، اور اس كى خرابى و فساد زيادہ ہو تو وہ حرام ہے.

اور اگر فرض بھى كر ليا جائے كہ ڈرامہ ميں صحابہ كرام كے كردار ميں مصلحت كا وجود ہو بھى تو اس ميں فساد اور خرابى اس كى مصلحت سے زيادہ ہے.

مصلحت كى رعايت اور خيال كرتے ہوئے اور فساد كو روكنے كے ليے اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے صحابہ كرام كى عزت و شرف اور مقام و مرتبہ كى حفاظت كرتے ہوئے يہ منع ہوگا.

اوپر جو كچھ بيان ہوا ہے اس كى بنا پر ڈرامہ اور فلم وغيرہ ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے كسى بھى صحابى كا كردار ادا كرنا حرام ہے.

واللہ تعالى اعلم.

اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

ماخذ: اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ديكھيں: مجلۃ البحوث الاسلاميۃ ( 1 / 223 - 248 )