جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

اخراجات زيادہ ہونے كى بنا پر نكاح كى توثيق دير سے كرانا

145435

تاریخ اشاعت : 13-03-2012

مشاہدات : 3281

سوال

ايك نوجوان نے اپنے دوست كى بہن سے منگنى كى اور عقد نكاح كرنا چاہا ليكن اس كے ليے بہت زيادہ اخراجات كى ضرورت تھى تو نوجوان نے گورنمنٹ كے مقرر كردہ طريقہ كى بجائے خفيہ طور پر عقد نكاح كرنے كا فيصلہ كيا، يعنى لڑكى كے گھر والوں اور نوجوان كے مابين شرعى نكاح ہوا.
جب اس كى مالى حالت بہتر ہوگى تو گورنمنٹ كے طريقہ كے مطابق نكاح كر ليا جائيگا، كيونكہ سركارى طور پر نكاح رجسٹر اسى صورت ميں ہو سكتا ہے، برائے مہربانى يہ بتائيں كہ اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

شرعى طور پر بااعتماد عقد نكاح وہ ہے جو خاوند اور لڑكى كے ولى كے مابين دو گواہوں كى موجودگى ميں ہوتا ہے لہذا جب اس طريقہ سے گواہوں كى موجودگى ميں ولى كى جانب سے ايجاب اور خاوند كى جانب سے قبول ہو تو عقد نكاح مكمل ہو جائيگا.

رہا وہ عقد نكاح جو سركارى اداروں ميں ہوتا ہے اس كا مقصد توثيق ہے، تا كہ اختلاف اور طلاق كى حالت ميں حقوق پامل نہ ہوں بلكہ حقوق كى حفاظت ہو سكے.

علماء كرام كى ايك جماعت نے موجودہ دور ميں سركارى طور پر نكاح كو رجسٹر كرانا اور اس كى توثيق كرانا واجب قرار دى ہے، كيونكہ لوگ ذمہ دارى كا ثبوت نہيں ديتے اور لوگوں كى دينى حالت بہت پتلى ہوچكى ہے، اور اس ليے بھى كہ اگر نكاح سركارى طور پر رجسٹر نہ كرايا گيا ہو تو حقوق ضائع ہو جاتے ہيں.

اس مسئلے كا تفصيلى بيان سوال نمبر ( 129851 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

ليكن اگر شرعى عقد نكاح كى ضرورت پڑے اور سركارى طور پر اسے رجسٹر كرانا كچھ وقت كے ليے مؤخر كر ديا جائے تو اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ جو چيز سد ذريعہ كے ليےحرام ہو وہ ضرورت اور راجح مصلحت كى خاطر مباح ہو جاتى ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جو اشياء سد ذريعہ كے باب سے ہوں جب انكى ضرورت نہ ہو تو ان سے روكا گيا ہے، ليكن ايسى مصلحت اور ضرورت كى خاطر جس كے بغير وہ حاصل نہ ہو اس سے منع نہيں كيا گيا " انتہى

ديكھيں:مجموع الفتاوى ( 23 / 214 ).

عقد شرعى مكمل ہونے كے بعد يہ چاہيےكہ رخصتى اور دخول كا اعلان اور تقريب سركارى طور پر نكاح رجسٹر كرانے تك مؤخر كر دينا چاہيے، تاكہ اس كے جوغلط نتائج نكل سكتے ہيں ان سے بچا جا سكے، اور اس كے ليے حسب استطاعت جلدى كى جائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب