جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

منگيتر كو كہاں تك ديكھنا مباح ہے

145678

تاریخ اشاعت : 08-03-2020

مشاہدات : 7174

سوال

بعض بھائيوں كى رائے ہے كہ شادى سے قبل عورت كو بغير پردہ اور عفت و حشمت والے لباس كے بغير ديكھنا جائز ہے، اس كى دليل يہ ديتے ہيں كہ ايك نوجوان شخص كسى عورت سے شادى كرنا چاہتاتھا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" كيا تم نےاسے ديكھا ہے ؟
تو نوجوان نے جواب نفى ميں ديا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے فرمايا:
" اسے ديكھ لو كيونكہ يہ تمہارے مابيں مستقل محبت و مودت كے ليے زيادہ بہتر ہے "
سوال يہ ہے كہ اس حديث ميں اسے ديكھنے سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى مراد كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر كوئى شخص كسى عورت سے منگنى كرنے كا عزم ركھتا ہے اور ا سكا خيال ہو كہ وہ اسے قبول كر لےگى تو اس كے ليے عورت كو ديكھنا جائز ہے تا كہ اس سے نكاح بصيرت پر ہو.

ترمذى اور ابن ماجہ نے مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كيا ہے كہ انہوں نے ايك عورت كو نكاح پيغام بھيجا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں فرمايا:

" اسے ديكھ لو تو يہ تمہارے مابين محبت و مودت كے ليے زيادہ بہتر ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1087 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1865 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1865 ).

يعنى تمہارے درميان ہميشہ محبت و مودت كے ليے زيادہ بہتر ہے، اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.

اور ابو داود رحمہ اللہ نے جابر بن عبد اللہ رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جب تم ميں سے كوئى كسى عورت سے منگنى كرے تو اگر وہ اسے ديكھ سكتا ہو تو وہ ضرور ديكھے جو اس كو اس سے نكاح كى دعوت دے "

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے ايك لڑكى سے منگنى كى تو ميں اسے ديكھنے كے ليے چھپ جايا كرتا تھا، حتى كہ ميں نے وہ كچھ ديكھ ليا جس نےمجھے اس سے نكاح كى دعوت دى، اور ميں نے اس سے شادى كر لى "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2082 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

منگيتر شخص كے ليے اپنى منگيتر كو كہاں تك ديكھنا مباح ہے اس ميں علماء كرام كا اختلاف ہے:

جمہور علماء كرام حنفى شافعى اور مالكى حضرات كہتے ہيں كہ وہ اس كا چہرہ اور ہاتھ ديكھ سكتا ہے، اور ليكن احناف كہتے ہيں كہ وہ پاؤں بھى ديكھ سكتا ہے.

اور حنابلہ يہ كہتے ہيں كہ وہ كچھ ديكھ سكتا ہے جو عام طور پر ظاہر ہوتى ہيں مثلا چہرہ اور ہاتھ اور سر، گردن اور پاؤں.

اور داود ظاہرى كے ہاں اور امام احمد كى ايك روايت ميں ہے كہ وہ سوئتين كے علاوہ باقى سارا جسم ديكھ سكتا ہے.

يہاں حنابلہ كا مسلك راجح ہے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب اس كى لاعلمى ميں ديكھنے كى اجازت دى تو اس سے يہ معلوم ہوا كہ آپ نے وہ كچھ ديكھنے كى اجازت جو عام طور پر ظاہر ہوتا ہے، كيونكہ ديكھنے ميں صرف اكيلا چہرہ مفرد كرنا ممكن نہيں كيونكہ يہ ظاہر ہونے ميں شريك ہے، اور اس سے ليے بھى غالبا يہ ظہر ہوتا " انتہى

ديكھيں: كشاف القناع ( 5 / 10 ).

مزيد آپ الموسوعۃ الفقھيۃ ( 19 / 199 ) اور المغنى ( 7 / 74 ) كا بھى مطالعہ كريں.

رہا يہ كہ سوئتين كے علاوہ باقى سارا جسم ديكھنا تو يہ قول صحيح نہيں؛ كيونكہ اصل ميں عورت كو ديكھنا حرام ہے اور پھر اپنے گھر ميں عورت بےلباس اور ننگى نہيں ہوتى حتى كہ اس ديكھنے كى اس رخصت سے يہ سمجھا جائے اس كے سارے جسم كو ہى ديكھنا جائز ہے، اور منگيتر كو ديكھنا اس شرط سے مقيد ہے كہ اس سے شہوت انگيزى نہ ہو، اور سارا بدن ديكھنے ميں اس سے پرامن نہيں رہا جا سكتا.

يہاں منگيتر كو ديكھنے كے ليے شروط كا ذكر كرنا بہتر معلوم ہے:

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" عورت كو ديكھنے كى چھ شرطيں ہيں:

اول:

خلوت كے بغير ہو.

دوم:

يہ بغير شہوت كے ہو.

اس ليے اگر شہوت كے ساتھ ديكھا تو يہ حرام ہے؛ كيونكہ ديكھنے كا مقصد معلومات حاصل كرنا ہے نا كہ استمتاع كرنا.

سوم:

ظن غالب پر ہو كہ رشتہ قبول كر ليا جائيگا.

چہارم:

اس كو ديكھا جائے جو غالبا ظاہر ہوتا ہے.

پنجم:

منگنى كا عزم ہو، يعنى ديكھنے كا مقصد يہ ہو كہ وہ اس كے نتيجہ ميں اس لڑكى سے منگنى كريگا، ليكن اگر وہ عورتوں ميں گھومتا پھرے يعنى ايك سے دوسرى عورت كو ديكھتا پھرے تو يہ جائز نہيں.

ششم:

عورت بےپرد يا خوشبو لگا كر يا سرمہ وغيرہ لگا كر اور ميك اپ كر كے مت آئے؛ كيونكہ اس سے مقصود يہ نہيں كہ وہ انسان كو جماع كى رغبت دلائے حتى كہ يہ كہا جائے كہ تم بےپرد ہو كر آؤ، كيونكہ يہ كچھ تو بيوى اپنے خاوند كے سامنے كرتى ہے تا كہ اسے جماع كى دعوت دے.

اور اس ليے بھى كہ اس ميں فتنہ و خرابى ہے، اور اصل ميں يہ حرام ہے؛ كيونكہ وہ عورت تو اس كے ليے اجنبى ہے، پھر اس كا اس طرح بن سنور كر سامنے آنے ميں بہت زيادہ خرابى اور فتنہ كا باعث ہے.

كيونكہ اگر وہ اس سے شادى كر لے اور اسے اس كے علاوہ پائے تو وہ اس سے بے رغبتى كرنے لگےگا، اور اس كے بارہ ميں اس كى نظر تبديل ہو جائيگى، خاص كر شيطان انسان كے ليے بيوى سے بھى زيادہ اجنبى عورت كو بنا سنوار كر پيش كرتا ہے جو انسان كے ليے حلال نہ ہو، اس ليے آپ كچھ لوگوں كو ديكھيں گے كہ اس كى بيوى سب سے زيادہ خوبصورت ہے ليكن " نعوذ باللہ " وہ قبيح قسم كى دوسرى عورت كو ديكھتا پھرتا ہے كيونكہ شيطان اسے بعينہ بنا سنوار كر پيش كرتا ہے، كيونكہ وہ اس كے ليے حلال نہ تھى.

اس ليے جب يہ سب كچھ جمع ہو جائے كہ شيطان اسے بنا سنوار كر پيش كرے، اور وہ بھى خوبصورت اور بن سنور كر آئے تو اس كى خوبصورتى و جمال اور بڑھ جائيگى، پھر شادى كے بعد وہ اس كے تصور سے كم ہو تو يہاں انجام برا ہى ہوگا.

اگر يہ كہا جائے كہ اس كے ظن غالب ميں قبوليت كا جواب كيسے ہوگا ؟

جواب يہ ہے كہ:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے لوگوں كے درجات اور طبقات بنائے ہيں جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

ہم نے ہى ان كى زندگانئى دنيا كى روزى ان ميں تقسيم كى ہے، اور ايك كود وسرے سے بلند كيا ہے، تا كہ ايك دوسرے كو ماتحت كر لے الزخرف ( 32 ).

چنانچہ اگر كوئى صفائى كرنے والا شخص كسى وزير كى بيٹى كو نكاح كا پيغام دے تو غالبا يہ رد كر جائيگا، اور اسى طرح اگر كوئى بڑى اور زيادہ عمر والا شخص كسى نوجوان خوبصورت لڑكى كو نكاح كا پيغام دے تو يہ بھى غالبا رد كر ديا جائيگا " انتہى

ديكھيں: الشرح الممتع ( 12 / 22 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب