ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

اثنائے رضاعت حمل ميں كوئى حرج نہيں

148273

تاریخ اشاعت : 23-12-2010

مشاہدات : 8595

سوال

ميرا انيس ماہ كا بيٹا ہے، ميں يہ جاننا چاہتى ہوں كہ آيا ميرے ليے مدت رضاعت ميں حاملہ ہونا جائز ہے، اور اگر ميں حاملہ ہو جاؤں اور بيٹے كو دودھ مكمل نہ پلا سكوں تو كيا حكم ہوگا ؟
يا كہ مجھے دو برس دودھ پلانے كى مدت پورى ہونے كا انتظار كرنا چاہيے، اور پھر بعد ميں حمل كى كوشش كروں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آدمى كے ليے مدت رضاعت ميں اپنى بيوى سے جماع كرنا جائز ہے، اور اس ميں نہ تو بيوى پر كوئى گناہ ہے اور نہ ہى خاوند پر، اور حمل كى حالت ميں عورت كو دودھ پلانے ميں بھى كوئى حرج نہيں.

كيونكہ مسلم شريف كى حديث ميں ہے جدامہ بنت وہب الاسديہ رضى اللہ عنہا بيان كرتى ہيں كہ ميں نے سنا رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہ فرما رہے تھے:

" ميں نے ارادہ كيا كہ غيلہ سے روك دوں، حتى كہ مجھے بتايا گيا كہ روم اور فارس والے ايسا كرتے ہيں تو ان كى اولاد كو كوئى نقصان نہيں ديتا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1442 ).

الغيلۃ:

امام مالك موطا ميں اور اصمعى وغيرہ اہل لغت كہتے ہيں كہ:

بيوى سے مدت رضاعت ميں جماع كرنا غيلہ كہلاتا ہے.

اور ابن سكيت كہتے ہيں: حمل كى حالت ميں عورت كا دودھ پلانا غيلہ ہے.

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 10 / 16 ).

اور ابن اثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

الغيلۃ: غين پر زير كے ساتھ: يہ الغيل غين پر زبر كے ساتھ سے اسم ہے، اور يہ كہ آدمى اپنى بيوى كے ساتھ مدت رضاعت ميں جماع كرے، اور اسى طرح جب دودھ پلاتے ہوئے وہ حاملہ ہو جائے " انتہى

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 70350 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

ليكن عورت كى حالت كو ديكھنا ضرورى ہے كہ آيا وہ اسے برداشت بھى كر سكےگى، اور پھر دودھ پيتے بچے كى واجبات اور حمل كى مدت ميں اسے كيا كچھ چاہيے اس ميں موازنہ ضرورى ہے.

اگر وہ ديكھے كہ ہو سكتا ہے وہ اپنے امور ميں موازنہ نہيں كر سكتى، يا پھر ديكھے كہ اس ميں اس پر ضرر ہے تو پھر رضاعت كى مدت كرنے تك حمل ميں تاخير كرنے ميں كوئى حرج نہيں، رضاعت ختم كر كے حمل كى كوشش كى جائے.

شيخ ابن جبرين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

ميرے چھ بيٹے ہيں ان ميں اكثر كا حمل مدت رضاعت دو برس ختم ہونے سے قبل ہى ٹھر گيا، ميں نے چاہا كہ ٹيوب ركھوا لوں جو صرف دو برس تك مانع حمل ہے، برائے مہربانى اس كا شرعى حكم بيان كريں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" جب خاوند اور بيوى راضى ہوں تو اس ميں كوئى مانع نہيں، ليكن آپ يہ تاكيد كر ليں كہ اس كا رحم پر كوئى ضرر و نقصان نہ ہو، اور نہ ہى قطع نسل وغيرہ ہو " انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن جبرين ( 2 / 96 ).

مزيد آپ سوال نمبر ( 21203 ) كے جواب كا مطالعہ بھى كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب