جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

اگر خاوند اپنى بيوى كو كہے اگر تم اس كلام سے ميرے والد كو مراد لے رہى ہو تو تم ميرے ليے لازم نہيں كيا ان الفاظ سے طلاق واقع ہو جائيگى

151059

تاریخ اشاعت : 15-04-2011

مشاہدات : 4350

سوال

ميں نوجوان ہوں اور ميرا عقد نكاح ہو چكا ہے ليكن رخصتى نہيں ہوئى، آج ميرا اپنے خاوند سے جھگڑا ہوا كيونكہ وہ اس نے وہ فليٹ فروخت كرنے كى تجويز پيش كى تھى جس ميں ہمارى شادى ہونى تھى، كيونكہ ابھى وہ تيار نہيں ہوا، وہ اسے فروخت كر كے كوئى اور خريدنا چاہتا ہے.
ليكن جب ميں نے اس سے يہ كہا كہ وہ اس كے بارہ ميں ميرے والد كو بتائے تو اس نے ايسا كرنے سے انكار كر ديا، اور اس نے ايسے طريقہ سے بات كى جو اس كے خيال كے مطابق عام سى ہے، ليكن ميرے خيال ميں وہ ميرے والد كى توہين كا باعث ہے.
تو ميں نے اس سے كہا: مجھے اللہ كى ہى كافى ہے اور وہ بہت اچھا كارساز ہے، جس نے آپ كے ذہن ميں فليٹ فروخت كرنے كى سوچ ڈالى ہے اس سے اللہ ہى كافى ہے، صراحت سے كہتى ہوں كہ ميرا مقصد اس كى والدہ تھى، ليكن اس نے اس بات كو اپنے والد كے بارہ ميں ليا اور مجھے كہنے لگا:
والد صاحب تو فليٹ فروخت كرنے كے مخالف ہيں ميں نے اسے كہا: ميرى مراد آپ كے والد نہيں ہيں، تو وہ كہنا لگا: اگر تم اس سے مراد ميرا والد لے رہى ہو تو تم ميرے ليے لازم نہيں، يہ بات اس وقت ہوئى جب ہم باہر نكل رہے تھے، ہم نے اپنا باہر جانے كا پروگرام مكمل كيا اور جب ميں نے اسے ڈانٹا تو وہ مجھے كہنے لگا:
تم يہ سوچ رہى ہو كہ ممكن ہے تم ميرے گھر والوں ميں سے كسى كو مراد لو اور ميں خاموش رہوں ؟
يہ مت سوچو، يہ مت سوچو، اگر يہ بات تم ميرے ليے لازم نہيں ہو تكرار كے ساتھ ہو كيا اس سے طلاق واقع ہو جاتى ہے يا نہيں ؟
برائے مہربانى مجھے كوئى نصيحت فرمائيں، كيونكہ ہم دونوں ہى متعصب قسم كے افراد ہيں، اور ايك دوسرے كو نہيں چھوڑتے، ميں جانتى ہوں كہ ميں غلطى پر ہوں ليكن اس نے مجھے ايسا كرنے كا موقع ديا ہے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مذكورہ الفاظ طلاق كے صريح الفاظ ميں شامل نہيں ہوتے؛ بلكہ يہ طلاق كے كنايہ ميں شامل ہوتا ہے، اور اس ميں خاوند كى نيت اور مراد كو ديكھا جائيگا كہ اگر اس نے ان الفاظ سے طلاق مراد لى ہے تو پھر طلاق ہو گى.

ليكن اگر اس سے اس نے طلاق بھى مراد لى ہو تو بھى يہ طلاق اس شرط پر معلق ہو گى جو اس نے ذكر كى ہے، كہ تم نے اپنى كلام سے اس كے والد كو مراد ليا ہے.

اور اگر وہ ان الفاظ سے آپ كو طلاق دينا مراد نہيں لے رہا تو پھر يہ طلاق نہيں ہے؛ كيونكہ طلاق كے كنايہ والے الفاظ سے اس وقت تك طلاق واقع نہيں ہوتى جب تك ان الفاظ سے خاوند طلاق مراد نہ لے.

اور اسى طرح اگر وہ ان الفاظ سے طلاق تو مراد لے رہا ہو ليكن اس نے اسے كسى شرط پر معلق كر ديا ہو تو بھى اس وقت طلاق واقع نہيں ہوگى جب تك وہ شرط نہ پائى جائے واقع تو يہى لگتا ہے كہ آپ نے اس كى والدہ مراد لى تھى نہ كہ والد اس ليے يہ طلاق نہيں ہو گى.

ليكن اگر اس نے دوسرى بار آپ كو يہ كہا ہو كہ:

اگر تم نے اس سے ميرے گھر كا كوئى فرد مراد ليا ہے جيسا كہ پہلى بار كہا تھا، يا پھر اس طرح كا كوئى اور طلاق كے كنايہ والا لفظ بولا تو پھر جو شرط ركھى گئى تھى وہ پورى ہو جائيگى جس پر اس نے طلاق كو معلق كيا تھا.

اس طرح اس مسئلہ ميں اسى طرح كہا جائيگا كہ اگر اس نے طلاق كى نيت كى تھى اور شرط بھى پورى ہو گئى تو طلاق واقع ہو جائيگى، اور اگر اس نے ان الفاظ سے طلاق مراد نہيں لى تو پھر طلاق واقع نہيں ہو گى.

اور اگر آپ كو اس ميں شك ہو كہ اس نے كوئى ايسا لفظ بولا ہے جو طلاق كا متقاضى ہے يا نہيں؛ تو پھر اصل ميں نكاح باقى ہے كيونكہ شك سے طلاق واقع نہيں ہوتى بلكہ يقين كے ساتھ ہى ہوگى.

يہ جاننا ضرورى ہے كہ اگر مرد اپنى بيوى كو دخول اور رخصتى سے قبل طلاق دے ديتا ہے تو اس ميں رجوع نہيں ہے بلكہ يہ طلاق بائن ہو گى، ليكن اس ميں نيا نكاح ہو سكتا ہے.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 22850 ) اور ( 126292 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

دوم:

اللہ كى بندى: آپ كو علم ہونا چاہيے كہ گھر كى اصلاح ايك ہى مرد كے ساتھ ہو سكتى ہے؛ اس ليے اگر آپ اپنے خاوند كے ساتھ اس اعتبار سے معاملات كرتى ہيں كہ جو حقوق خاوند كو حاصل ہيں وہى سب حقوق آپ كو بھى حاصل ہيں اور آپ اس پر نگران ہيں جس طرح وہ آپ كا نگران اور ذمہ دار ہے، تو پھر آپ اپنى ازدواجى زندگى كو خطرہ ميں ڈال رہى ہيں اور آپ اپنے گھر اور رہائش كو قربانى بنا رہى ہيں.

جى ہاں آپ كے اپنے خاوند پر حقوق ضرور ہيں؛ ليكن آپ كو يہ علم ہونا چاہيے كہ آپ كے ليے كچھ حديں مقرر ہيں اس ليے آپ ان حدود سے تجاوز مت كريں.

اور يہ جان ركھيں كہ گھر ميں نگران اور ذمہ دار اور حاكم تو صرف مرد اور خاوند كو حاصل ہے، اس ليے آپ اسے اپنے خاوند سے چھيننے كى كوشش مت كريں اور اس ميں اس سے جھگڑا مت كريں.

كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ان ( بيويوں ) كے بھى اسى طرح اچھے طريقہ سے حقوق ہيں جس طرح ان كے اوپر ( خاوندوں كے ) حقوق ہيں .

يعنى عورتوں كو اپنے خاوندوں پر بالكل اسى طرح حقوق اور لوازم حاصل ہيں جس طرح خاوند كے اپنى بيويوں پر مستحب اور لازم حقوق ہيں.

خاوند اور بيوى كے حقوق كا مرجع معروف يعنى اچھے طريقہ سے ہے: يعنى اس علاقے اور ملك ميں جو عادات رائج ہيں اور وقت كے مطابق ہيں اور شريعت كے متصادم نہيں، اور يہ اوقات اور جگہوں اور حالات اور اشخاص اور عادات كے مختلف ہونے سے مختلف ہونگے.

اس ميں يہ دليل پائى جاتى ہے كہ نان و نفقہ اور لباس اور معاشرت و رہائش ميں اور اسى طرح مباشرت و ہم بسترى ميں بھى يہ سب كچھ معروف يعنى اچھے طريقہ كى طرف پلٹےگا، عقد مطلق كا موجب يعنى مطلق عقد نكاح سے يہى واجب ہوتا ہے.

ليكن اگر عقد نكاح مطلق نہيں بلكہ مشروط ہے تو پھر ان دونوں كو وہ شروط پورى كرنا ہونگى، ليكن ايسى شرط جو كسى حرام كو حلال كرنے يا پھر كسى حلال كو حرام كرنے والى ہو تو وہ شرط پورى نہيں ہوگى.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور مردوں كو ان ( عورتوں ) پر فضيلت اور درجہ حاصل ہے .

يعنى مردوں كو عورتوں پر رفعت و رياست اور بادشاہى حاصل ہے، اور ان پر انہيں زيادہ حق حاصل ہے، جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

مرد عورتوں پر حاكم ہيں اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كود وسرے پر فضيلت دى ہے اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں . انتہى

ديكھيں: تفسير السعدى ( 101 ).

اس ليے آپ دونوں ميں معاملات مشورہ كے ساتھ ہوں اور آپ دونوں جو بھى كام كرنے لگے آپس ميں مشورہ كريں، اور آپس ميں بات چيت كريں اور اس ميں ايك دوسرے كے ساتھ نرم رويہ اور شفقت قائم ركھيں.

اس ليے اگر آپ ديكھيں كہ خاوند غصہ ميں آ گيا ہے تو آپ اس كے ساتھ اس مسئلہ ميں مذاكرات مت كريں، اور شيطان كى مدد مت كريں، اور آپ اس سے بات كر كے اپنے آپ كو كا مد مقابل مت ثابت كريں، يا پھر اپنے آپ كو اس پر حاكم مت بنائيں.

اگر آپ اس نقص اور كمى پر قابو پا سكتى ہوں جو آپ ميں پائى جاتى ہے تو پھر آپ ايسا ضرور كريں، اور اپنے كچھ حق كو اپنے خاوند كے حق ميں چھوڑ ديں اور اس سے دستبردار ہو جائيں.

اور جو آپ كو غصہ ميں لا رہى ہے اس پر صبر و تحمل سے كام ليں، اور آپ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم والا ادب اختيار كريں جب آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك صحابى كے وصيت طلب كرنے پر فرمايا تھا:

صحابى نے عرض كيا: مجھے كوئى وصيت فرمائيں ؟!

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم غصہ مت كيا كرو "

اس صحابى نے كئى بار يہى الفاظ دھرائے : مجھے كوئى وصيت فرمائيں :

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ہر بار يہى فرمايا:

" غصہ مت كيا كرو "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6116 ).

ہم آپ سے اس ليے مخاطب ہوئے ہيں كہ آپ نے ہم سے سوال كيا اور مسئلہ دريافت كيا ہے؛ اگر وہ يعنى آپ كا خاوند ہم سے دريافت كرتا تو ہم اس كے ساتھ بات چيت كسى اور طرح سے كرتے.

اور آپ نے جو تيزى بيان كى ہے اور اپنے خاوند كا تصور پيش كيا ہے، اور اس كا حساس ہونا بيان كيا ہے كہ اس كے گھروالوں كے بارہ ميں كوئى بھى كلمہ صادر ہو تو وہ غضبناك ہو جاتا ہے، يا پھر آپ سے كوئى تصرف ہو تو بھى.

يہ پريشان كن معاملہ ہے، اور آپ دونوں كے مستقبل كے ليے بھى پريشانى كا باعث ہے، اس سے آپ كو ابھى سے اس كا حل تلاش كرنا چاہيے، كہ كہيں شادى يعنى رخصتى ہو جانے كے بعد يہ شادى ناكام ہو كر خاندان ہى تباہ نہ ہو جائے، كہ غصہ كى حالت ميں آ كر گھر كو ہى تباہ نہ كر بيٹھيں.

اس كے علاوہ بھى ہم يہ ديكھتے ہيں آپ دونوں كا آپس ميں اس طرح كے اخلاق كا مظاہرہ كرنا ہمارے خيال كے مطابق تو مستقبل ميں بھى مستقل امن و سلامتى كا مظہر نہيں يہ خطرات كا پيش خيمہ ہے، اور آپ كى ازدواجى زندگى مستقل طور پر نہيں چل سكےگى.

اس ليے آپ اپنے اور خاوند كے معاملہ ميں غور و فكر كريں اور آپ دونوں كسى ايك رائے پر جمع ہو جائيں تا كہ اپنى اصلاح كريں اور اپنے گھر كو تباہ ہونے سے محفوظ كر سكيں.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كو ايسے اعمال كرنے كى توفيق نصيب فرمائے جن سے وہ راضى ہوتا ہے اور جنہيں پسند فرماتا ہے، اور آپ دونوں كى اصلاح فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب