جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

تعليمى ميدان ميں طلباء كى معاونت كرنے والى تنظيموں سے تعاون لينے كا حكم

سوال

اگر ملكى قانون اجازت ديتا ہو كہ آپ ايسے عمل كريں جو حقيقت ميں دھوكہ اور فراڈ پر مشتمل ہو تو كيا اس طريقہ سے حاصل كرنا مال حلال ہوگا ؟
مثال كے طور پر جہاں ميں رہتا ہوں اس ملك كا قانون يونيورسٹى كے طلباء كو اجازت ديتا ہے كہ وہ اپنے تعليمى ميدان ميں مختلف اخراجات پورے كرنے كے ليے مختلف تنظيموں سے بطور معاونت كچھ مال لے سكتے ہيں.
كيا مسلمان شخص كے ليے اس حالت ميں اس طرح كا مال حاصل كرنا جائز ہے، يعنى كيا اس كے ليے يہ مال لينا حلال ہوگا يا نہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مذكورہ نظام ميں ہميں تو كوئى ايسى چيز ظاہر نہيں ہوئى جو دھوكہ اور فراڈ ميں شامل ہوتا ہو؛ بلكہ دھوكہ اور فراڈ تو اس طرح ہوتا ہے كہ اگر نظام ميں كچھ شروط متعين كى گئى ہوں اور ان شروط پر عمل نہ كيا جائے بلكہ مخالفت كرتے ہوئے مال حاصل كريں يا پھر قانون كے خلاف كوئى حيلہ كر كے كوئى چيز حاصل كى جائے تو يہ دھوكہ ہوگا.

ليكن كسى مسلمان شخص كے  شايان شان نہيں كہ وہ ضرورتمند نہ ہوتے ہوئے بھى ان تنظيموں سے معاونت طلب كرتا پھرے؛ كيونكہ اس حالت ميں وہ مانگنے والا شمار ہوگا اور اس كا ہاتھ نچلا شمار كيا جائيگا.

حكيم بن حزام رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے كچھ مانگا تو آپ نے مجھے عطا كيا، ميں نے پھر مانگا تو آپ نے اور ديا اور پھر آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے حكيم يہ مال بہت ميٹھا اور سرسبز و شاداب ہے جس نے يہ مال سخاوت نفس كے ساتھ ليا تو اس كے ليے اس ميں بركت كى جائيگى، اور جس نے اسے اشراف نفس كے ساتھ حاصل كيا ( يعنى طلب كرتے ہوئے ليا ) تو اس ميں كوئى بركت نہيں كى جائيگى، بالكل اس شخص كى طرح ہے جو كھائے اور اس كا پيٹ نہيں بھرتا، اوپر والا ہاتھ نيچے والے ہاتھ سے بہتر ہے " صحيح بخارى حديث نمبر ( 1403 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1035 ).

جب شريعت اسلاميہ يہ پسند نہيں كرتىكہ مسلمان شخص نيچے ہاتھ والا يعنى مانگنے والا ہو، اگرچہ اوپر والا يعنى دينے والا ہاتھ بھى مسلمان كا ہو تو پھر يہ كيسے ہو سكتا ہے كہ اگر دينے والا ہاتھ كافر كا ہو ؟!

اور اگر ان تنظيموں سے معاونت حرام طريقہ سے ہى حاصل ہو سكتى ہو يعنى جھوٹ بول كر يا دھوكہ اور فراڈ كے ليے ذريعہ يا پھر اگر اس معاونت ميں طالب علم كے دين يا اسكے نفس كو فتنہ ميں ڈالنے كا سبب بنے تو بھى جائز نہيں.

شيخ عبد العزيز بن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ان كے ليے كفار ممالك سے مدد لينے ميں كوئى حرج نہيں ليكن شرط يہ ہے كہ اگر اس كے نتيجہ ميں كوئى واجب اور فرض نہ چھوڑا جاتا ہو، يا پھر كسى حرام اور ممنوعہ كام كا ارتكاب نہ ہو.

انہيں گورنمنٹ كے طريقہ كےمطابق معاونت حاصل كرنى چاہيے، اس كے حصول كے ليے انہيں جھوٹ نہيں بولنا چاہيے " انتہى

ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز ( 28 / 239 ).

مزيد اسى مسئلہ ميں تفصيل ديكھنے كے ليے آپ درج ذيل سوالات كے جوابات كا مطالعہ كريں:

سوال نمبر ( 6357 ) اور ( 7959 ) اور ( 52810 ).

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب