منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

کیا عورت پرشادی کرنا واجب ہے

1665

تاریخ اشاعت : 10-02-2004

مشاہدات : 13190

سوال

کیا عورت کے لیے شادی کرنا واجب ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہم ذیل میں مسلمان فقھاء کرام کے موقف کوپیش کرتے ہیں :

مواھب الجلیل میں لکھا ہے :

عورت پر اس کے نان ونفقہ اورسرچھپانے سے عاجز ہونے کی بنا پر نکاح کرنا واجب ہے کیونکہ یہ سب کچھ اسے نکاح سے ہی حاصل ہوسکتا ہے ۔

شرح الکبیر میں ہے کہ :

اگر اسے اپنے آپ پر زنا میں پڑنے کا خدشہ ہو تو نکاح واجب ہے ۔

اورفتح الوھاب میں ہے :

طاقت رکھنے والی عورت پر نکاح کرنا سنت ہے ، اوراسی طرح نفقہ کی محتاج اوروہ عورت جسے فاجر قسم کے مردوں کے حملوں کا ڈر ہو وہ بھی اسی حکم میں شامل ہے ۔

اورصاحب مغنی المحتاج کہتے ہیں :

جب زنا کا خوف ہو تو نکاح کرنا واجب ہے ، ایک قول ہے جب نذر مانے توبھی نکاح واجب ہے ، پھر عورت کے نکاح کے حکم میں اس کا قول ہے : اگروہ اس کی محتاج ہو ، یعنی اسے نکاح یا پھر نفقہ کی ضرورت ہو یا وہ فاجر قسم کے لوگوں کے حملے سے ڈرے تو پھر اس کے لیے نکاح کرنا مستحب ہے ، یعنی اس میں دین اورشرمگاہ کی حفاظت اورنفقہ وغیرہ کی خوشحالی ہے ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المغنی میں کہتے ہیں :

وجوب نکاح میں ہمارے اصحاب میں اختلاف ہے ، مشہور مسلک تویہی ہے یہ واجب نہيں ہے ، لیکن اگر کسی کونکاح ترک کرنےکی بنا پر حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہو تواس پر اپنے نفس کی عفت لازمی ہے ، عام فقھاء کرام کا قول یہی ہے ۔

نکاح کے بارہ میں لوگوں کی تین قسمیں ہيں :

کچھ تو ایسے ہیں کہ اگر وہ نکاح نہ کرے تواسے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہو عام فقھاء کرام کے ہاں ایسے شخص کے لیے نکاح کرنا واجب ہے کیونکہ اس پر اپنے آپ کوحرام کام سے بچانا اورعفت اختیار کرنا لازم ہے اوریہ نکاح کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔

اورسبل السلام میں ہے :

ابن دقیق رحمہ اللہ تعالی نے ذکر کیا ہے کہ : جسے حرام کام میں پڑنے کا خدشہ ہواور وہ نکاح کی طاقت بھی رکھتا ہو ایسے شخص پر کچھ فقھاء کرام نے نکاح کرنا واجب قرار دیا ہے ، توایسے شخص پر نکاح کرنا واجب ہوگا جونکاح کیے بغیر زنا ترک نہيں کرسکتا ۔

اورصاحب بدائع الصنائع کا کہنا ہے :

نکاح کی خواہش اورطاقت رکھنے کی حالت میں نکاح کرنا فرض ہے ، حتی کہ جو شخص عورت کی خواہش رکھتا ہو اورصبر نہ کرسکتا ہو اور مہر و نان نفقہ دینے کی کی قدرت بھی رکھنے کے باوجود نکاح نہ کرے تو وہ گنہگار ہوگا ۔

اوپر کے بیان میں اس بات کی وضاحت بیان کی گئي ہے کہ کن کن حالات میں نکاح کرنا واجب ہوتا ہے ، اب اگر آپ یہ کہیں کہ ہم عورت کے متعلق یہ کس طرح تصور کرسکتے ہیں ، عادت تو یہ ہے کہ مرد ہی تلاش کرت اور شادی کا پیغام دیتا اور نکاح کےلیے دروازے کھٹکھٹاتا ہے ، یہ کام عورت کا نہیں ؟

تواس کا جواب یہ ہے کہ اس کے بارہ میں جوکچھ عورت کرسکتی ہے وہ یہ کہ اگر اس کے پاس کوئي اچھا اورکفو دینی رشتہ آتا ہے تو اسے رد نہیں کرنا چاہیے بلکہ وہ قبول کرلے ۔

عورت اورمرد کے لیے ضروری ہے کہ اسے یہ علم ہونا چاہیے کہ اسلام میں نکاح کا بہت ہی عظيم مقام ومرتبہ ہے ، جب اسے یہ علم ہوگاتو پھر وہ اس کی حرص بھی رکھیں گے ذيل میں ہم اس موضوع کے بارہ میں بہت ہی اچھا خلاصہ پیش کرتے ہیں :

امام ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب المغنی میں کہتے ہيں :

فصل :

نکاح کی مشروعیت میں اصل تو کتاب وسنت اوراجماع ہے :

کتاب اللہ کے دلائل :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورعورتوں سے جو بھی تمہیں اچھی لگیں تم ان سے نکاح کرلو ، دد دو ، تین تین ، چار چار سے النساء ( 3 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پرکچھ اس طرح فرمایا :

تم میں سے جو مرد و عورت بے نکاح ہیں ان کا نکاح کردو ، اوراپنے نیک بخت غلاموں اورلونڈیوں کا بھی النور ( 32 ) ۔

سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دلائل :

ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( اے نوجوانوں کی جماعت تم میں سے جوبھی شادی کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اسے شادی کرنی چاہیے کیونکہ یہ آنکھوں کو نیچا کرتا ہے اورشرمگاہ کی حفاظت کا باعث ہے ، اورجو طاقت نہيں رکھتا اسے روزے رکھنے چاہيیں یہ اس کے لیے ڈھال ہیں ) متفق علیہ ۔

اس کے علاوہ اوربھی بہت سی آيات واحادیث ہیں ، اورمسلمانوں کا نکاح کے مشروع ہونے پر اجماع ہے ۔

ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ اگر میری عمر کے دس دن بھی باقی بچیں اورمجھے علم ہو کہ میں اس کے آخر میں فوت ہوجاؤں گا اورمجھے نکاح کی خواہش ہو تو میں نکاح کرلوں گا کہ کہيں فتنہ میں نہ پڑ جاؤں ۔

اورعبداللہ بن عباس رضي اللہ تعالی عنہما نے سعید بن جبیر رحمہ اللہ تعالی کو فرمایا :

شادی کرو کیونکہ اس امت کا سب سے بہتر شخص وہ ہے جس کی عورتیں زيادہ ہوں ۔

اورابراھیم بن میسرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مجھے طاؤس رحمہ اللہ نے کہا تم نکاح کرلو وگرنہ تمہیں وہی بات کہوں گا جوعمر رضي اللہ تعالی عنہ نے ابی الزوائد کو کہی تھی : کہ یا تو تم نکاح کے قابل ہی نہیں یا پھر تمہیں فجور نے نکاح کرنے سے روک رکھا ہے ۔

مروزي کی روایت میں ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے کہا : بغیر شادی کے رہنا اسلام میں کہيں بھی نہیں ملتا ، اورفرمایا : جو تمہيں یہ کہے کہ شادی نہ کرو وہ تمہیں اسلام کے علاوہ کسی اورچيز کی دعوت دے رہا ہے ۔

پھر رحمہ اللہ تعالی کہنے لگے :

نکاح کی مصلحتیں بہت ساری ہیں ، اس میں دین اسلام کی حفاظت اوربچا‎ؤ ہے اور اسی طرح عورت کی بھی حفاظت و پاکبازی اوراس کے حقوق کاخیال اورنسل آگے بڑھتی ہے اورامت اسلامیہ کی کثرت ہے اوراس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فخر کا ثبوت ہے اوراس کے علاوہ بھی بہت ساری مصلحتیں پائي جاتی ہيں ۔

اےہماری سوال کرنے والی بہن اس سے آپ کویہ علم ہوگا کہ نکاح کی مصلحت اورمنافع بہت زيادہ ہیں ، اس لیے مسلمان عورت اس سے پیچھے نہيں رہتی اورخاص کر جب اسے کوئي دین اوراخلاق والا رشتہ مل رہا ہو ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد