جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

غير رسمى طور پر شرعى طريقہ سے نكاح كر كے چھوڑ ديا اب كسى اور سے شادى كرنا چاہتى ہے

169737

تاریخ اشاعت : 26-01-2012

مشاہدات : 3475

سوال

اڑھائى برس قبل ميرى منگنى يورپى ممالك ميں رہنے والے ايك شخص سے طے پائى، يہ ديكھنے كے بعد وہ شخص حج بيت اللہ كر چكا ہے اور نماز ادا كرتا ہے ميرى خالہ كے بيٹے نے ہمارا نكاح پڑھايا كيونكہ اس وقت نكاح خواں اور مولانا صاحب موجود نہ تھے.
ان اڑھائى برسوں ميں ميں نے بہت مشكلات اٹھائيں پہلے دن سے اس شخص نے جھوٹ بولا اور اس نے اپنى شادى كو مخفى ركھا كہ اس كى وہاں يورپ ميں بھى ايك بيوى ہے، بہر حال مشكلات جارى رہيں كيونكہ ميرى رخصتى نہيں ہوئى تھى، اس نے ويزہ كا بہانہ بنا كر رخصتى كى تقريب منعقد كرنا چاہى كہ ويزہ كے ليے رخصتى كى تقريب كى تصوير چاہيے.
ليكن رخصتى كى رات ميرے اور اس كے درميان خلوت نہيں ہونے دى كيونكہ اس نے رسمى طور پر نكاح رجسٹر نہيں كرايا تھا، پھر دو برس بعد ميرے گھروالوں نے اس سے موقف كى تحديد كا مطالبہ كيا، ليكن اس نے كوئى جواب نہ ديا اور پھر ٹيلى فون بند كر ديا، كچھ عرصہ بعد اس نے مجھے ميسج كياجس ميں اس كا كہنا تھا كہ ميں بچى يا عاجز نہيں، اور اس نے مجھ سے مطالبہ كيا كہ ميں اپنے ليے مناسب خاوند اختيار كرنے كى پلاننگ كروں كيونكہ وہ عورتوں كا غلام نہيں بننا چاہتا، اس كے بعد وہ ميرى زندگى سے بالكل مكمل طور پر غائب ہو گيا.
حتى كہ اسكى فيملى والے بھى اس سلسلہ ميں كوئى بات كرنے سے احتراز كرنے لگے اور ميرے گھر والوں كے ساتھ ايك جگہ اكٹھے ہونے سے بھاگنے لگے، اس كے بعد ميرى ايك اور نوجوان سے منگنى ہوئى تو اس كے دس ماہ بعد نہ ختم ہونے والى جنگ شروع ہوئى كہ يہ تو اس كى بيوى ہے، اس كے مقابلہ ميں انہوں نے ميرے گھر والوں سے بہت بڑى رقم كا مطالبہ شروع كر ديا، كہ ہم نے نكاح فسخ كر ديا ہے، حالانكہ اس نے مجھے دس ماہ سے چھوڑ ركھا تھا اور ميرے بارہ نہ تو وہ خود اور نہ ہى اس كى فيملى كچھ پوچھتى تھى، برائے مہربانى اس آگ كو ٹھنڈا كرنے ميں ميرى راہنمائى فرمائيں.
اس سائلہ كو درج ذيل ليٹر ارسال كيا گيا:
ہمارى عزيز بہن ہم آپ سے درج ذيل امور كى وضاحت طلب كرتے ہيں تا كہ آپ كے سوال كا جواب ديا جا سكے:
كيا آپ كا نكاح آپ كے ولى ( آپ كے والد يا بھائى ) كى موجودگى ميں ہوا، يا كہ آپ كے ولى نے آپ كےخالہ كے بيٹے كو عقد نكاح كا وكيل بنايا تھا ؟
اس سے بھى واضح عبارت ميں سوال كچھ اس طرح ہے كہ ايجاب كى يعنى منگيتر سے قبول كرانے كى ذمہ كس نے ادا كى اور كس نے كہا كہ ميں نے آپ كى شادى فلاں بنت فلاں سے كى ؟
اور كيا آپ كے والد يا بھائى موجود تھے، اور آپ كى شادى ميں ان كا موقف كيا تھا ؟
ميرى جانب آپ نے جو ليٹر ارسال كيا اس كا جواب درج ذيل ہے:
عقد نكاح كے وقت ميرے والد صاحب موجود تھے ليكن بھائى نہيں، رہا مسئلہ ايجاب و قبول كا تو انہوں نے ميرے والد سے دريافت نہيں كيا، بلكہ مجھ سے قبول يا انكار كے بارہ ميں دريافت كيا تھا اور ميں نے اس پر موافق تھى، عقد نكاح ميں ميرا كوئى وكيل نہ تھا جسے وكيل بنايا گيا ہو، بلكہ جس طرح خريد و فروخت ہوتى ہے اس طرح عقد نكاح ہوا تھا انہوں نے مجھ سے شادى پر موافقت دريافت كى تھى تو ميں نے موافقت كى تھى، ليكن كسى كاغذ پر نہيں لكھا گيا بلكہ سب كچھ زبانى طور پر ہوا.
اس شادى كے بارہ ميں ميرے والد صاحب كے موقف كے بارہ ميں عرض ہے كہ شادى كا فيصلہ ميں نے كرنا تھا كيونكہ يہ ميرى زندگى تھى اس ليے والد صاحب نے ميرے قبول كرنے اور موافقت كرنے پر اس كى موافقت كى تھى. آپ ميرى راہنمائى فرمائيں اللہ آپ كو جزائے خير عطا فرمائے.

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كى خالہ كے بيٹے نے جو نكاح پڑھايا ہے وہ صحيح ہے كيونكہ آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ كا ولي يعنى آپ كے والد اس نكاح ميں موجود تھے، اور آپ كى اس نكاح پر رضامندى بھى ثابت ہوتى ہے.

زوجيت كے ثبوت كے ليے يہى شرعى نكاح كافى ہے، اس كے ليے رسمى طور پر نكاح كا پڑھايا جانا يا نكاح رجسٹر كرانا شرط نہيں، بلكہ يہ سب كچھ تو حقوق كى حفاظت كے ليے كيا جاتا ہے.

اس بنا پر آپ اس وقت اس شخص كى بيوى ہيں، اور آپ كے ليے كسى دوسرے سے اس وقت تك شادى كرنا جائز نہيں جب تك پہلا شخص آپ كو طلاق نہ دے، اور اب جبكہ يہ واضح ہو چكا ہے كہ يہ خاوند شادى كے اخراجات مہر يا رہائش اور بيوى كے اخراجات ادا كرنے سےعاجز ہے تو ضرر اور نقصان سے بچنے كےليے اس شخص سے طلاق طلب كرنى جائز ہے.

اس صورت ميں طلاق كے حصول كے ليے اہل خير سے تعاون حاصل كريں جو آپ كو اس شخص سے طلاق دلوائيں، يا پھر آپ اپنى معاملہ شرعى عدالت ميں لے جائيں، يا پھر خاوند كى جانب سے ادا كردہ مال واپس كر كے خلع كا سہارا ليں اگر اس نے كچھ ديا ہے تو وہ واپس كر ديں، يا نہيں بھى ديا تو چھٹكارا حاصل كرنے كے ليے كچھ دے كر جان چھڑائيں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے دعا ہے كہ وہ آپ كى مدد فرمائے اور آپ كو صحيح راہ كى توفيق دے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب