جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ایک عورت کی بیٹی پانی میں ڈوب گئی، تو کیا وہ جنت میں ہے؟ اور جنت کے کون سے درجے میں ہے، اور کیا وہ اپنی ماں کا صبر محسوس کرتی ہے؟

185515

تاریخ اشاعت : 03-03-2015

مشاہدات : 7175

سوال

میری بیٹی کی عمر اس وقت آٹھ سال تھی جب وہ سوئمنگ پول میں ڈوب کر مر گئی ، وہ ماشاء اللہ بہت نیک تھی، مجھ سے بھی زیادہ اللہ سے ڈرتی تھی؛ میرا سوال یہ ہے کہ : میرے علم کے مطابق ڈوب کر مرنے والاشہید ہوتا ہے، اور جو بچہ ابھی بالغ نہ ہوا ہو وہ"ابرار"یعنی نیکو کاروں میں شامل ہوتا ہے۔
میرا یہ سوال ہے کہ میری بیٹی جنت میں ہے یا نہیں؟
مجھے اللہ کی رحمت سے بہت امید ہے کہ میری بیٹی اللہ کی رحمت سے جنت پا لے گی، میں اس بچی کی ماں ہوں، وہ میری گود میں فوت ہوئی، میں نے ہی اسے غسل دیا، اور اس کو دفن کرنے تک اس کے ساتھ رہی، او راب تک اسکی یاد میں میں نے ایک آنسوں بھی نہیں بہایا، میں مبالغہ آرائی نہیں کر رہی، میں کسی بھی انسان سے زیادہ تحمل، صبر کی مالک ہوں؛ بس سوال یہ ہے کہ کیا میری بیٹی واقعی شہید ہے، اور کیا اس کے بارے میں میرے صبر کو محسوس کرتی ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی آپکو ثابت قدم رکھے، اور  آپکی کم سن بیٹی کی وفات پر صبر کرنے کی وجہ سے  آپکو ڈھیروں اجر سے نوازے، ہم اللہ تعالی سے آپکی بیٹی کیلئے  جنت کا سوال کرتے ہیں، اور آپکے ساتھ آپکے خاوند کیلئے اللہ تعالی سے اچھے بدلے کے متمنی ہیں۔

مصیبت کے وقت صبر کی توفیق اللہ تعالی کی اپنے بندوں پر  رحمت کے سبب  ہے۔

دوم:
پہلے سوال نمبر: (98575) اور (3095) کے جوابات میں گزر چکا ہے کہ ڈوب کر مرنا شہادت ہے، اور غرق ہونے والا شہداء میں شامل ہے۔

سوم:
مسلمانوں کے بچے جنت میں ہے، اس بات پر سب کا اجماع ہے، چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" اہل علم کا  اس بات پر اجماع ہے کہ مسلمانوں کے بچوں میں سے فوت ہونے والے  بچے جنتی ہیں، کیونکہ بچے مکلف نہیں ہوتے" انتہی
" شرح مسلم " (16/207)

ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مسلمانوں کے بچے جنتی ہیں، اس پر اہل السنہ و الجماعہ کا اجماع ہے"انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (5 /182)

اور آپ سوال نمبر: (117432) کا جواب ملاحظہ کریں، تا کہ انکے برزخ سے لیکر حشر ، حساب کتاب ، اور دخولِ جنت تک کا سعادت مند سفر بھی آپکو معلوم ہو۔

بلاشبہ آپکی بیٹی -رحمہا اللہ- جوبچپن میں  غرق آب ہونے کی وجہ سے فوت ہوگئی، اور وہ اتنی چھوٹی سی عمر میں بھی اللہ سے ڈرتی تھی، تو یہ  مسرور کن بات ہے، لہذا اللہ سے حسن ظن رکھو۔

احادیث مبارکہ میں یہ بات ثابت ہے کہ قیامت کےد ن بچے اپنے والدین کیلئے  شفاعت کرینگے، اور یہ بھی ثابت ہے کہ شہدا اپنے ستر رشتہ داروں کی شفاعت کرینگے، اس بارے میں مزید جاننے کیلئے سوال نمبر: (98575) کا مطالعہ کریں

چہارم:
اہل سنت و الجماعت کا یہ موقف ہے کہ ہم کسی کی تعیین کر کے جنت یا جہنم کا قطعی فیصلہ نہیں کرتے، چاہے وہ چھوٹا بچہ ہی کیوں نہ ہو، تاہم جن کے بارے میں تعیین کے ساتھ نصوص میں ثابت ہے کہ وہ جنتی ہیں یا کہیں اور جائیں گے تو انکے بارے میں ہم تعیین کرتے ہیں، اس بارے میں مزید جاننے کیلئے سوال نمبر: (731) کا مطالعہ کریں۔

امام مسلم رحمہ اللہ نے حدیث نمبر:(2662) میں عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا ہے کہ وہ کہتی ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کو ایک انصاری بچے کے جنازے کیلئے دعوت دی گئی،  تو میں نے کہا: "اس بچے کیلئے خوشخبری ہو ! یہ تو جنت کی چڑیوں میں سے ایک چڑیا ہے، اس نے تو کبھی برا عمل کیا ہی نہیں، اور نہ ہی برا عمل ہوتے دیکھا ہے"تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (یا کچھ اور بات ہے؟عائشہ! اللہ تعالی نے  کچھ لوگوں کو جنتی کا حقدار بنا دیا ہے اور وہ ابھی اپنے آباء کی پشت میں تھے ، اور اسی طرح کچھ لوگوں کو اللہ تعالی نے جہنم کا  سزاوار بنا دیا  ہے، اور وہ ابھی اپنے آباء کی پشت میں تھے)"

ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کا مقصد  یہ تھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو منع کیا جائے کہ وہ کسی معین شخص کو جنت یا جہنم  کیساتھ مختص نہ کریں، چاہے وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی اس کے بارے میں جنت یا جہنم کا قطعی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا" انتہی
"مجموع فتاوى ابن باز" (25 /122)

اس بنا پر ہم آپکی بیٹی کیلئے اللہ کے فضل سے امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالی اسے جنت نصیب فرمائے، لیکن قطعی طور پر بات کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے؛ کیونکہ معین شخص کیلئے جنت یا جہنم  کا قطعی پروانہ  تیار کرنے کیلئے صحیح ، صریح نص اور دلیل چاہیے، البتہ ہم یہ ضرور کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے بچے جنت میں ہیں، یعنی کسی کا نام لیکر نہیں کہتے، بلکہ مطلق بات کرتے ہیں، اور گذشتہ ذکر شدہ اجماع میں بھی یہی عبارت ہے۔

چنانچہ  اگر ہم کسی کے بارے میں معین کر کے جنت یا جہنم  کا قطعی فیصلہ نہیں کرسکتے تو جنت  یا جہنم کے کس درجے  میں کوئی ہے؟ یہ تو بالاولی ہم بیان نہیں کر سکتے۔

لہذا ہم یہ کہتے ہیں کہ غرق آب ہونا شہادت ہے، لیکن  کسی شخص کو معین کر کے  اسے شہداء میں شامل  نہیں کر سکتے۔

پنجم:
آپکا یہ کہنا کہ کیا آپکی بیٹی آپکے صبر کے بارے میں محسوس کرتی ہے؟ تو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے؛ کیونکہ جب بندہ فوت ہوجائے تو اس کا دنیا اور اہل دنیا سے رابطہ منقطع ہو جاتا ہے، اس لئے ہم اس کے بارے میں بھی قطعی کوئی بات نہیں کر سکتے، بالکل اسی طرح اس بات کی مطلقا ہم نفی بھی نہیں کرسکتے، کیونکہ یہ غیبی بات ہے، جس کےبارے میں صرف اللہ کو علم ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ کہنا کہ میت اپنے اہل خانہ  کے بارے میں جانتی ہے، اور انکے حالات کے بارے میں خبریں رکھتی ہے، تو یہ بے بنیاد بات ہے، کچھ لوگ اپنے خوابوں کے بارے میں اس قسم کی باتیں کرتے ہیں کہ وہ اپنے فوت شدگان کو  خواب میں ملے ہیں، اور انہوں نے اپنی آپ بیتی بیان بھی کی، لیکن ان خوابوں پر اعتماد نہیں کیاجاسکتا، نیند میں آنے والے خواب علم غیب سے تعلق رکھنے والے امور کے بارے میں کوئی معتمد چیز نہیں ہیں، تاہم ایک مومن کو اپنے فوت شدگان کے بارے میں اچھی امید رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، چاہے وہ اسے جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں، انسان کو چاہیے کہ ان کیلئے دعا کرے، رحمت مانگے، اور انکی طرف سے صدقہ بھی کرے" انتہی
ماخوذ از:

http://www.binbaz.org.sa/mat/10396

اس لئے آپ  اپنی بیٹی کیلئے دعا کریں، اس کے بارے میں اچھی امید رکھیں، اور آپ اپنی بیٹی کے بارے میں صبر کر رہی ہیں یہ بھی اللہ کا آپ پر فضل اور  احسان ہے ، آپ کو صبرِ ِ ِ ِ  ِ ِِجمیل کی اس توفیق کے پیچھے اس کے علاوہ کوئی اور راز نہیں ۔]یعنی آپ اس کے در پے نہ ہوں کہ آپکی بیٹی کو اس صبر کی اطلاع ہے کہ نہیں[

اور ہم آپکو یہ مشورہ دیں گے کہ اس بارے میں زیادہ مت سوچیں، کہیں آپ مختلف سوالات، اور شبہات میں نہ پڑ جائیں، اس لئے جیسے آپ نے صبر کا دامن تھاما ہوا ہے، اسے تھام کر رکھیں، اور اللہ تعالی سے مدد کی طلب گار رہیں۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب