جمعہ 10 شوال 1445 - 19 اپریل 2024
اردو

بچی کے دل میں خود اعتمادی پیدا کرنے کا طریقہ

سوال

میری والدہ کا میرے ساتھ بہت ہی برا رویہ تھا، اسی رویے کی وجہ سے مجھ میں خود اعتمادی ختم ہو گئی ، جو بھی کام کرتی اس میں نقصان کر بیٹھتی ہوں، میرے اندر قوت فیصلہ بھی نہیں ہے، میری اب شادی ہو چکی ہے اور مجھے اللہ تعالی نے بیٹی عطا کی ہے، میں چاہتی ہوں کہ میں اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا نہ کروں جو میرے ساتھ ہوا ہے، مجھے نصیحت کریں کہ میں کیا کروں؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

دو سال کی عمر میں، ہر بچی اپنے ارد گرد کی دنیا کے بارے میں اپنا رویہ بنانا شروع کر دیتی ہے۔ کچھ ترقی پسند نفسیات (developmental psychologists)کے ماہرین کا خیال ہے کہ خود اعتمادی کا احساس ان رویوں میں سے ایک پہلا رویہ ہے اور 2 سال کی عمر میں ان احساسات کی مضبوطی کا انحصار اس بات پر ہے کہ بچے کو کس قسم کی دیکھ بھال ملتی ہے ؟ اور اس کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں والدین کے رویے کیسے ہیں؟ اس مرحلے میں بچی کے نشوونما کے آثار آزادی کی خواہش ظاہر کر نے کی صورت میں عیاں ہوتے ہیں، لہذا اسے اس مرحلے میں آزادی کے ساتھ بولنے، چلنے اور کھیلنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ بچی کی ذاتی ضرورت کے ساتھ منسلک ہے اور یہ ضرورت تبھی عیاں ہو گی جب بچی کو ممکنہ حد تک مکمل آزادی دی جائے ۔ اس کی تصدیق پختگی کے ذریعے نشو و نما کے نظریہ سے ہوتی ہے ، اس نظریے کا کہنا ہے کہ: ہمیں بچے کی انفرادیت کا احترام کرنا چاہیے اور اسے قدرتی طور پر نشو و نما پانے کے لیے آزاد چھوڑ دینا چاہیے۔ کچھ لڑکیوں میں خود اعتمادی کی کمی ہوتی ہے حتی کہ وہ کسی بھی چھوٹے یا بڑے معاملے میں اپنے آپ پر بھروسا نہیں کر پاتیں۔ وہ شاذ و نادر ہی آگے بڑھ کر کوئی کام کرتی ہیں اور ہمیشہ اس انتظار میں رہتی ہیں کہ کوئی ان سے کہے: "فلاں فلاں کام کرو۔" اور اگر کوئی مسئلہ در پیش ہو تو ایسی لڑکی کوئی فیصلہ نہیں کر پاتی ، بلکہ ممکن ہے کہ ایسے مسئلے کا سامنا کرنے سے بچنے کی کوشش کرے، یا رونا شروع کر دے۔ یہ کسی حد تک والدین کی غلطی کی وجہ سے ہے، اور اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں، مثلاً:

-ہر چھوٹے بڑے کام میں والدین کا حکم چلاتے رہنا، چاہے وہ کام اتنی اہمیت کا حامل نہ بھی ہو ، اس طرح بچی کے اندر تخلیقی صلاحیتیں مفقود ہو جاتی ہیں، اور بچی کو اپنے کیے ہوئے کام پر اعتماد نہیں رہتا، بلکہ ہمیشہ اسے انتظار رہتا ہے کہ کوئی اس کے کام کو صحیح قرار دے تو پھر کہیں جا کر اسے یقین ہو کہ اس کا کام واقعی صحیح ہے!

-کسی بھی کام کے کرنے پر ہمیشہ بچی کو ڈانٹا اور سرزنش کرنا، ہمیشہ بچی کی غلطیوں کے پیچھے لگے رہنا، اور بچی کو سخت انداز سے مخاطب کرنا۔ کبھی ایسا بھی ہو جاتا ہے کہ بچی محنت کرتی ہے لیکن اسی محنت کے دوران اس سے غلطی بھی ہو جاتی ہے تو اب حد سے زیادہ بچی کو ڈانٹ پلانا غلط رویہ ہے، حالانکہ بچی دلی طور پر اس چیز کی منتظر تھی کہ اس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جس سے ترغیب پا کر بچی مزید محنت، عمدگی اور نفاست کے ساتھ کام کرے ، لیکن معاملہ الٹ ہوا۔

-بچی کو دوسروں کے سامنے بولنے سے اس لیے ٹوک دینا کہ کہیں بولتے ہوئے غلطی نہ کر جائے، یا کچھ ایسی باتیں کر جائے جو اس کے لیے مناسب نہیں ہیں، یا بچی کو بات کرنے کی اجازت تو ہو، لیکن اسے الفاظ بھی دئیے جائیں کہ تم نے بولنا کیا ہے!

-ہمیشہ خطرات سے متنبہ کرتے رہنا، جس کی وجہ سے بچی ہر وقت دل میں کسی انہونی کا خطرہ لیے بیٹھی رہتی ہے، اور یہ سمجھتی ہے کہ وہ ہر طرف سے خطرات کے درمیان گھری ہوئی ہے۔

-بچی کو ذلیل کرنا اور اس کا مقابلہ کسی دوسرے سے کرنا کہ فلاں تو وہاں پہنچ گئی ہے اور تم ابھی تک یہاں ہو!

-بچی کا مذاق اڑانا۔

- بچی کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات پر توجہ نہ دینا۔

-حد سے زیادہ بچی کا خیال کرنا کہ ہمہ وقت اس کی صحت اور مستقبل کے بارے میں خدشات کا اظہار کرنا۔

جو بچی خود اعتمادی کھو بیٹھی ہو تو اس کے متعدد اثرات رونما ہوتے ہیں:

1-بچی کوئی بھی کام اکیلے کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی، جب اسے کہا جائے کہ فلاں چیز لے کر آؤ لیکن وہ چیز اس حالت میں نہیں ہے جیسی اسے بتلائی گئی تھی تو وہ کسی بھی اقدام کرنے سے رک جائے گی، اور جب اسے فیصلہ کرنے کا کہا جائے تو کوئی فیصلہ نہ کر پائے گی۔

2-کند ذہن اور تخلیقی صلاحیتوں سے بہت دور ہو گی۔

3- کوئی بھی کام اس کے ذمے لگایا جائے تو فوری چڑچڑاہٹ اور پریشانی کا اظہار کرتی ہے؛ کیونکہ اس نے اپنے ذہن میں یہ بٹھایا ہوا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے اسے ڈانٹ تو ضرور پڑے گی؛ کیونکہ وہ معیاری انداز میں کام پورا نہیں کر پائے گی۔

4- بچی کی ہمت جواب دے جائے گی، اور ارادے کمزور ہو جائیں گے، جہاں پر کمزوری نہیں ہونی چاہیے وہاں وہ کمزوری کا اظہار کرے گی، اور اپنے معاملات کو مرتب نہیں کر سکے گی۔

5-وہ اضطراب اور مایوسی کا شکار ہو جائے گی، اور مخالفانہ رویہ یا پسپائی اختیار کرنے لگے گی اور اس میں پیچھے ہٹنے کا رجحان پیدا ہو گا۔

والدین بچی کو ایسے منفی اثرات سے بچانے کے لیے اور بچی میں خود اعتمادی بڑھانے کے لیے کئی طریقے استعمال کریں۔ کچھ مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:

-والدین کو چاہیے کہ بچی کے لیے عمومی ہدایات تیار کریں اور دونوں ہی بچی کو بتلائیں کہ اللہ تعالی نے اس کے لیے جو حلال قرار دیا ہے اسے اپنائے، اور جن چیزوں کو اللہ تعالی نے بچی کے لیے حرام قرار دیا ہے ان سے بچے۔ والدین کوشش کریں کہ بچی کو اعلی صفات اور حسن اخلاق سے روشناس کریں، بچی کے دل میں برے اخلاق ، بری باتوں، اور گندی حرکتوں سے دور رہنے کی صلاحیت پیدا کریں۔ بچی کو بتلائیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے درگزر کیا کرے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بچی کو اپنی تخلیقی صلاحیتیں سامنے لانے کا بھر پور موقع دیں۔

-والدہ بچی کے ذمے گھر کے چھوٹے موٹے ایسے کام لگائے جو بچی آسانی سے کر سکتی ہو، اگر اس سے کوئی غلطی ہو جائے تو پھر بھی اس کی حوصلہ افزائی کرے، اور ساتھی ہی کام کو صحیح انداز سے کرنے کا عملی طریقہ دکھائے، بسا اوقات صرف حوصلہ افزائی پر ہی اکتفا کرے، اور اس کے ساتھ مل کر کام مکمل کر دے، لیکن کام کی درستگی کے لیے بچی کو مخاطب نہ کرے۔ اور اگر ذمے لگایا گیا کام بچی آسانی سے نہ کر سکتی ہو تو والدہ بچی سے کام کے حوالے سے مشورہ کرے، اور بسا اوقات بچی کو اپنی رائے ظاہر کرنے کا بھی موقع دے، پھر بچی سے صحیح اور غلط کی نشاندہی کروائے، تا کہ بچی کو علم ہو کہ سب سے غلطی ہو سکتی ہے اس طرح آگے بڑھنے کے لیے بچی میں مزید جذبہ پیدا ہو گا۔

-والدین کوشش کریں کہ اپنے رشتہ داروں اور بچی کی سہیلیوں کے سامنے اس کی حوصلہ افزائی کرے، اور مناسب انعام بھی دیں۔ اسی طرح عبادات کی پابندی کرنے پر بھر پور انداز میں بچی کو شاباش دیں، مثلاً: نمازوں کی پابندی کرنے پر، قرآن کریم یاد کرنے پر، اور تعلیم میں اچھے نمبر حاصل کرنے پر، اور اچھے اخلاق وغیرہ پر۔۔۔ الخ

-بچی کو اچھے اچھے القاب اور کنیت سے پکاریں، برے القابات سے نہ یاد کریں، اور جب کوئی ناگوار کام کرے تو اسے سادہ نام سے پکاریں، تا کہ بچی کو احساس ہو کہ کچھ غلط ہوا ہے جس کی وجہ سے صرف سادہ نام لیا گیا ہے، اور آئندہ غلطی کا اعادہ نہ ہو۔

-ارادوں کو پختہ بنائیں، اس کے لیے درج ذیل کام کرنے ہوں گے:

الف: کسی بھی راز کو چھپانے کی صلاحیت پیدا کریں؛ کیونکہ جس وقت بچی راز چھپانے کی کوشش کرے گی اور راز کسی کو نہیں بتلائے گی تو اس سے بچی کی قوتِ ارادی مضبوط ہو گی اور آہستہ آہستہ خود اعتمادی پروان چڑھنے لگے گی۔

ب: روزے رکھنے کی عادت ڈالیں: کیونکہ جس وقت بچی روزہ رکھ کر بھوک اور پیاس برداشت کرنے لگے گی تو اسے احساس ہو گا کہ وہ اپنے آپ پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت حاصل کر رہی ہے، اس کے نتیجے میں بچی کی قوتِ ارادی مضبوط ہو گی اور زندگی میں آنے والے مختلف اتار چڑھاؤ میں اپنے آپ پر مکمل اعتماد کے ساتھ ان کا سامنا کرے گی۔

-اپنے آپ پر سماجی خود اعتمادی پروان چڑھائیں، اس کے لیے بچی کو گھر کے کام کرنے دیں، والدین کے احکامات کی تعمیل کروائیں، بڑوں کے ساتھ بیٹھنے دیں، اور بچوں سے ملنے دیں۔

-علمی خود اعتمادی پیدا کریں، اس کے لیے قرآن کریم کی تعلیم دیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث سکھائیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت پڑھائیں، تو بچپن میں ہی جب بچی کو یہ سب چیزیں یاد ہوں گی تو بچی علمی خود اعتمادی حاصل کر لے گی؛ کیونکہ اس کے پاس حقیقی علم ہو گا ، خرافات اور قصے کہانیاں اس کے ذہن میں نہیں ہوں گی۔

دوسری جانب والدین پر یہ بھی لازم ہے کہ بچی کو کچھ چیزوں سے بچائیں بھی، نیز اگر بچی میں کوئی احساس کمتری پیدا ہوتا ہے تو اس کا علاج کریں، عام طور پر احساس کمتری تب آتا ہے جب : بچی کو دوسروں کے سامنے حقارت آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑے، کوئی اس کا مذاق اڑائے، یا عجیب و غریب الفاظ اس پر کسے جائیں، یا بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کے سامنے برے الفاظ میں بلایا جائے، بسا اوقات جب انسان اپنے دوستوں میں ہو اور وہاں کوئی ایسے لفظوں میں پکارے تو اس کو انسان زیادہ محسوس کرتا ہے، یا کبھی اجنبی لوگوں کے سامنے بھی غیر مناسب انداز میں پکارا جائے تو انسان اپنے آپ کو کمتر اور حقیر سمجھنے لگتا ہے، اور انسان کے ذہن میں ایسی چیزیں پیدا ہوتی ہیں کہ انسان دوسروں کے بارے میں کینہ رکھنے لگتا ہے۔

اگر اس قسم کے الفاظ والدین کی زبان سے بچی کے لیے کسی چھوٹی یا بڑی غلطی کی وجہ سے ہی صادر ہوں تو تب بھی یہ الفاظ اس غلطی کو درست کرنے کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں ہیں، اگر مقصد غلطی کی اصلاح ہے تو اس طریقے سے اصلاح کی بجائے بچی کے ذہن میں نہایت منفی اثرات رونما ہوں گے، اور بچی صرف گالم گلوچ اور سخت الفاظ کی زبان ہی سمجھے گی، اور اخلاقی و اندرونی طور پر بچی نہایت شکستہ دل ہو گی۔

ایسی صورت حال میں صحیح طریقہ علاج یہ ہے کہ: انسان بچی کو اس کی غلطی اچھے انداز میں بتلائے، اور وہ دلائل بھی رکھے جن کی بدولت بچی اس بات کو تسلیم کرے کہ اس سے غلطی ہوئی ہے اور آئندہ غلطی نہیں ہو گی، والدین دونوں بیک وقت بچی کو مت ڈانٹیں، یا لوگوں کے سامنے سرزنش مت کریں، ابتدائی طور پر بچی کی اصلاح کے لیے اچھا انداز اپنائیں، اور بچوں کی اصلاح کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے طریقے پر چلیں؛ کیونکہ بچوں کی تربیت کا جہان نہایت حساس ہوتا ہے، کیونکہ بچے بہت جلدی اثر قبول کرتے ہیں، اور بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں، انہیں چیزوں کی حقیقت کا ادراک نہیں ہوتا، اور بچے بذات خود کچھ نہیں کر سکتے، اس لیے بچی کے اندر خود اعتمادی پیدا کرنا بچی کی شخصیت سازی کے لیے زندگی کے تمام مراحل میں انتہائی ضروری ہے۔

ماخذ: حنان عطیہ طوری جہنی کی کتاب: " تنشئة الفتاة المسلمة " صفحہ: 163