جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

مسلمان مرد کی غیرمسلم عورت اورغیرمسلم مرد کی مسلمان عورت سے شادی

سوال

مجھے اسلام کے بارہ میں ایک شبہ ہے کیا آپ اس کی وضاحت کرسکتے ہیں ؟
کیا مسلمان مرد کے لیے کسی غیر مسلم عورت سے شادی کرنا جائز ہے ، چاہے وہ شادی کے بعد بھی اسلام قبول نہ کرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان مرد کسی غیرمسلم عورت یعنی یھودیہ یا نصرانیہ سے نکاح کرسکتا ہے ، اس کے علاوہ کسی اوردین سے تعلق رکھنے والی عورت سے مسلمان شادی نہیں کرسکتا اس کی دلیل اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان ہے :

ساری پاکیزہ چيزیں آج تمہارے لیے حلال کردی گئيں ہیں اوراہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لیے حلال ہے اورتمہارا ذبیحہ ان کے لیے حلال ہے ، اور پاکدامن مسلمان عورتیں اورجو لوگ تم سے پہلے کتاب دیۓ گئے ہيں ان کی پاکدامن عورتیں بھی حلال ہیں جب کہ تم ان کے مہرادا کرو اس طرح کہ ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو ۔۔۔ المائدۃ ( 5 ) ۔

امام طبری رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہيں :

اورتم سے پہلے جنہیں کتاب دی گئي ہے ان کی پاکدامن عورتیں یعنی اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والے عرب اورباقی سب لوگو جنہیں تم سے قبل کتاب دی گئي ہے اوروہ تورات اورانجیل پر عمل کرنے والے یھودی اور عیسائي ہيں ان کی آزاد اورپاکدامن عورتوں سے بھی نکاح کرسکتے ہو ۔

جب تم انہیں ان کے مہر ادا کردو یعنی : جن مسلمان اوران کتابی پاکدامن عورتوں سے تم نکاح کرو اورانہيں ان کے مہر ادا کردو ۔ دیکھیں تفسیر الطبری ( 6 / 104 ) ۔

اورمسلمان مرد کے لیے کسی مجوسی ، کیمونسٹ ، بت پرست ، وغیرہ عورت سے شادی کرنا حلال نہيں کیونکہ اللہ تعالی نے اس سے منع فرمایا ہے ۔

اس کی دلیل مندرجہ ذیل آیت ہے :

اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :

اورتم مشرکہ عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرو جب تک کہ وہ ایمان نہيں لے آتیں ، اورمومن لونڈی مشرکہ آزاد عورت سے بہتر ہے اگرچہ تمہيں اچھی ہی لگے البقرۃ ( 221 ) ۔

مشرک عورت وہ ہے جوبت پرستی کرتی ہو چاہے وہ عرب میں سے ہویا کسی اورقوم سے ۔

اورمسلمان عورت کے لیے حلال نہيں کہ وہ کسی غیر مسلم مرد سے شادی کرے ، وہ نہ تو یھودی اورنہ ہی عیسائي اورنہ ہی کسی اورکافر سے شادی کرسکتی ہے ، تو اس طرح مسلمان عورت کے حلال نہيں کہ وہ کسی یھودی ، یا نصرانی یا مجوسی یا کیمونسٹ اوربت پرست وغیرہ سے نکاح کرے ، اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے :

اورمشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو نہ دو جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئيں ، ایمان والا غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے ، گو مشرک تمہیں اچھا ہی لگے ، یہ لوگ جہنم کی طرف بلاتے ہیں اوراللہ تعالی اپنے حکم سے جنت اوراپنی بخشش کی طرف بلاتا ہے ، وہ اپنی آیات لوگوں کے لیے بیان فرما رہا ہے تا کہ وہ نصیحت حاصل کریں البقرۃ ( 221 ) ۔

امام طبری رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہيں :

اورتم مشرک مردوں کے نکاح میں اپنی عورتوں کو نہ دوجب تک کہ وہ ایمان نہ لے آئيں ، اورمومن غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے گووہ تمہیں اچھا ہی لگے ۔

یعنی اللہ تعالی نے یہاں پر یہ بیان کیا ہے کہ : اللہ تعالی نے مومن عورتوں پر مشرک مردوں سے نکاح کرنا حرام کر دیا ہے چاہے وہ کسی بھی قسم کا مشرک ہو تواے مومنوں تم اپنی عورتوں کو ان کے نکاح میں نہ دو یہ تم پر حرام ہے ، ان کا نکاح کسی مومن غلام سے کرنا جو اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اوراللہ تعالی کی شریعت پر ایمان رکھتا ہو تمہارے لیے اس سے بہتر ہے کہ تم ان کا نکاح کسی آزاد مشرک مرد سے کرو چاہے وہ حسب ونسب اورشرف والا ہی کیوں نہ ہو اورتمہیں اس کا شرف اور قبیلہ اچھا لگے ۔

قتادہ اورزھری رحمہما اللہ تعالی سے اس کے بارہ میں روایت ہے کہ :

اورتم اپنی عورتوں کو مشرکوں کے نکا ح میں نہ دو وہ کہتے ہیں :

اپنے دین والے کے علاوہ کسی اوردین چاہے وہ یھودی ہویا عیسائي اوراسی طرح مشرک سے اپنی عورتوں کا نکاح کرنا حلال نہيں ۔ دیکھیں تفسیر الطبری ( 2 / 379 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب