ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

زکاۃ کی رقم کو فقرا کیلئے مختص ترقیاتی منصوبوں میں لگانا

215051

تاریخ اشاعت : 28-03-2016

مشاہدات : 2995

سوال

سوال: ہم کچھ نوجوانوں نے مل کر فقراء کیلئے ایک خیراتی و ترقیاتی ادارہ بنایا ہے، درج ذیل تمام امور اس ادارے کے تحت سر انجام دیے جاتے ہیں:
ترقیاتی منصوبے:
1- ناخواندگی کا خاتمہ، اور ان پڑھ لوگوں کیلئے لکھائی پڑھائی کا انتظام و انصرام
2- منشیات اور سگریٹ نوشی کے خطرات سے متعلق آگہی و رہنمائی کیلئے لٹریچر کی تیاری اور لوگوں میں اس کی تقسیم
3- غریب لوگوں کی یومیہ ضروریات پوری کرنے کیلئے آمدن میں اضافہ کا باعث بننے والے چھوٹے چھوٹے منصوبے
4- پورے معاشرے کی خوشحالی کیلئے مفید و معاون ہر قسم کے ترقیاتی منصوبے کچھ خیراتی منصوبے بھی ہیں، جن میں درج ذیل اشیا ءغریبوں میں تقسیم کی جاتی ہیں:
1- سردیوں میں گرم بستر اور کمبل کی فراہمی۔
2- غذائی راشن کی فراہمی۔
3- گھروں کی مرمت (چھت، دیواریں، وغیرہ)تا کہ سامان چوری سے محفوظ رہے اور سردی بھی گھروں میں نہ گھسے۔
4- ادویات کی خریداری
5- قرضوں کی ادائیگی
6- بجلی سے چلنے والی بنیادی ضرورت کی اشیاء کی فراہمی
7- کپڑوں کی خریداری (اسکول یونیفارم، گھریلو لباس، عید تہوار کا لباس وغیرہ)
8- غریب لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کسی بھی چیز کی فراہمی فی الحال غریبوں کی مدد کیلئے زکاۃ، صدقات، اور عطیات کی شکل میں تعاون جمع کیا گیا تو ہمیں معلوم ہوا کہ صدقات سے زیادہ زکاۃ کا مال تھا، اور ہمیں یہ علم ہے کہ زکاۃ کا مال غریب کے ہاتھ میں دینا لازمی ہے، وہی اسے اپنی مرضی سے خرچ کرے، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنے میں ملا ہے کہ کچھ غریب لوگ پیسے کا صحیح استعمال نہیں کرتے ، جبکہ ان کے علاوہ دیگر لوگوں کو پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اس مسئلے کا حل ہم نے یوں نکالا کہ ہم غریب شخص کا مکان اندر سے دیکھتے ہیں، اور معائنے کے بعد اس کی ضروریات لکھ لیتے ہیں، پھر اسے پیسے دینے کی بجائے اس کی ضروریات زکاۃ کے مال سے پوری کر دیتے ہیں، تو کیا یہ صحیح ہے؟
اور کیا زکاۃ کا مال ترقیاتی منصوبوں میں استعمال ہو سکتا ہے؟
اور کیا زکاۃ کا مال اس خیراتی ادارے کی بلڈنگ کا کرایہ ادا کرنے میں استعمال ہو سکتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سوال میں ذکر کیا گیا ہے کہ اس خیراتی ادارے کو دو قسم کا تعاون حاصل ہوتا ہے:

1- عام صدقات و عطیات

2- زکاۃ

اس کی تفصیل یہ ہے کہ صدقات و عطیات کے مصارف زکاۃ کی بہ نسبت وسیع ہیں، اور ویسے بھی تعاون کرنے والے کو یہ بتلایا جانا چاہیے کہ یہ مبلغ کسی مخصوص مد میں ہی استعمال ہوگی، چنانچہ اس بات کو یقینی بنانا لازمی ہے، اور اگر کسی اور جگہ اسے استعمال کیا جائے تو تعاون کرنے والے کی رضا مندی لینا ضروری ہے، چنانچہ اس کی اجازت کے بغیر کسی اور مصرف میں اسے خرچ نہیں کیا جا سکتا، تاہم اگر تعاون کرنے والا شخص خود سے آپ کو رقم خرچ کرنے کی مکمل صلاحیت و اجازت دے دے ، یا اس کی طرف سے بیان کر دہ جگہ پر خرچ کرنا نا ممکن ہو جائے تو پھر اسی سے ملتے جلتے دیگر مصارف میں اسے خرچ کر دیا جائے گا۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"جہاں تک ممکن ہو سکے جو مال جس مقصد کیلئے جمع کیا جائے تو اسے صرف اِسی مقصد کیلئے ہی خرچ کرنا چاہیے تا آنکہ وہاں خرچ کرنا نا ممکن ہو جائے" انتہی
" لقاء الباب المفتوح " لقاء رقم : (43)

دوم:

فرض زکاۃ قرآن مجید میں بیان شدہ آٹھ مصارف زکاۃ کے علاوہ کہیں بھی خرچ نہیں کی جا سکتی۔

چنانچہ اس کیلئے اصل طریقہ کار یہی ہے کہ زکاۃ کی رقم مستحق شخص کو دے دی جائے اور وہ خود سے اپنی ضروریات میں اسے خرچ کرے، لیکن اس طریقے سے وہ لوگ مستثنی ہونگے جن میں خود صلاحیت نہیں پائی جاتی : مثلاً: پاگل، ناسمجھ بچہ، بیوقوف وغیرہ اور اسی طرح یہ صورت حال بھی مستثنی ہو گی جس میں زکاۃ کے مستحق شخص سے زکاۃ کی رقم سے خریداری کی اجازت لے لی جائے ۔

اس مسئلے کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (42542) اور (138684) میں گزر چکی ہیں۔

سوم:

رفاہی ادارے کی بلڈنگ کا کرایہ زکاۃ کی مد سے ادا کرنا جائز نہیں ہے۔

اس بارے میں شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ سے استفسار کیا گیا:
"ایک رفاہی ادارہ ہے جو زکاۃ جمع کر کے فقراء اور مساکین میں تقسیم کرتا ہے، اس کا دفتر میری  بلڈنگ میں ہے تو کیا  اس کا کرایہ وہ زکاۃ کے مال سے  دے سکتے ہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"زکاۃ کی رقم سے کرایہ ادا نہیں کیا جا سکتا، اس رفاہی ادارے کو چاہیے کہ دیگر اداروں کی طرح یہ بھی ایک اکاؤنٹ زکاۃ کیلئے مختص کرے اور ایک اکاؤنٹ صدقات کیلئے اور ایک اکاؤنٹ عام خیراتی امور کیلئے۔

ہر صورت میں زکاۃ کی رقوم کو دیگر رقوم سے جدا رکھنا ضروری ہے۔

سائل: شیخ  صاحب! ہمیں عام صدقات و عطیات اتنے موصول نہیں ہوئے کہ جس سے کرایہ پورا ہو سکے؟
شیخ: اگر نہیں موصول ہوئے تو کوئی بات نہیں،آپ کسی معین صاحب ِ خیرسےبھی  تعاون کروا  سکتے ہیں۔
" لقاءات الباب المفتوح " (141/12)

چہارم:

سوال میں مذکور تعلیمی منصوبوں پر زکاۃ کی رقم  خرچ کرنے کے بارے میں تفصیل ہے:

  1. ان پڑھ لوگوں کو تعلیم دینے کیلئے  زکاۃ خرچ کرنے کے بارے میں  وہی حکم ہے جیسے پہلے گزر چکا ہے کہ: فقیر اور غریب شخص کے ہاتھ میں رقم دی جائے چنانچہ آپ غریب کیلئے مختص زکاۃ میں سے اس کیلئے کتابیں نہیں خرید سکتے، صرف ایک صورت ہے کہ غریب شخص کتابوں کی خریداری میں معاونت کا محتاج ہو اور وہ خود سے خریداری نہ کر سکتا ہو تو تب جائز ہے، جیسے کہ پہلے اسی سوال کے دوسرے حصے میں گزر چکا ہے۔

لیکن اگر غریب خود سے زکاۃ کتب کی خریداری کیلئے طلب کرے تا کہ دینی اور دنیاوی علم حاصل کر کے مستقبل میں اپنی ضروریات پوری کرنے کے قابل ہو تو ایسی صورت حال میں بھی غریب شخص کو زکاۃ دی جا سکتی ہے۔

چنانچہ مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"شیخ تقی الدین نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ : "کتابیں خریدنے کیلئے زکاۃ وصول کرنا جائز ہے، بشرطیکہ کہ یہ کتب ایسے علم پر مشتمل ہوں جن سے دینی اور دنیاوی فائدہ حاصل ہو" انتہی ، اور ان کا یہ موقف درست ہے"
"الإنصاف" (3/ 218)

اسی طرح مکمل طور پر اپنا وقت شرعی علم کے حصول میں صرف کرنے والے شخص کو بھی زکاۃ کی مد سے کتب خرید کر دی جا سکتی ہیں، اسی طرح دینی علم و آگہی کیلئے لائبریری کا قیام بھی عمل میں لایا جا سکتا ہے، چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میرا یہ موقف ہے کہ مکمل طور پر اپنا وقت شرعی علم کے حصول میں صرف کرنے والے شخص کو زکاۃ دی جا سکتی ہے، کیونکہ اقامت دین علم و جہاد سے منسلک ہے، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ
ترجمہ: اے نبی! کفار اور منافقین سے جہاد کریں، اور ان کیساتھ سختی اپنائیں، ان کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے جو برا انجام ہے۔[التوبہ: 73]
 یہ سب کو معلوم ہے کہ منافقین سے جہاد قوت و اسلحہ کیساتھ نہیں ہوگا، بلکہ علم کے ذریعے ہوگا، اس بنا پر علم کے ذرائع اور کتب پر بھی زکاۃ صرف کی جا سکتی ہے، چاہے یہ کتب ان کی ملکیت میں دے دی جائیں یا خرید کر عوامی کتب خانوں میں مفاد عامہ کیلئے رکھ دی جائیں، کتب زکاۃ کی مد سے خریدنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح جنگجو کو آج کل بندوق وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح شرعی طالب علم کو باطل کا مقابلہ کرنے کیلئے کتب کی ضرورت ہوتی ہے۔

لیکن زکاۃ کی رقم سے طلباء کیلئے رہائش تعلیمی ادارے بنانے کے متعلق میری رائے مختلف ہے، ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ کتب پڑھنے سے علم حاصل ہوگا، کتابوں کے بغیر علم کا کوئی تصور نہیں ہے، لیکن رہائش و تعلیمی اداروں کے بغیر بھی تعلیم دی جا سکتی ہے، تاہم اگر طلباء غریب ہیں تو ان کیلئے زکاۃ کی مد سے رہائش کرایہ پر لی جا سکتی ہے، اس صورت میں انہیں طالب علم ہونے کی وجہ سے زکاۃ نہیں دی جائے گی ، بلکہ غریب ہونے کی وجہ سے ملے گی، یہی صورت حال تعلیمی اداروں کی ہے کہ اگر مساجد میں تعلیم دینا ممکن نہیں ہے تو ان کیلئے جگہ کرائے پر لیکر تعلیم دی جائے گی" انتہی
"مجموع الفتاوى" (18/ 392)

  1. زکاۃ کی رقم کو منشیات اور سگریٹ نوشی کے خطرات سے متعلق آگہی و رہنمائی کیلئے لٹریچر کی تیاری اور لوگوں میں تقسیم پر خرچ کرنا درست نہیں ہے؛ کیونکہ یہ زکاۃ کا مصرف نہیں ہے، چنانچہ  ایسے امور کیلئے زکاۃ سے ہٹ کر دیگر عطیات و صدقات خرچ کیے جا سکتے ہیں۔
  2. زکاۃ کی مد سے غریب لوگوں کی یومیہ ضروریات  پوری کرنے کیلئے آمدن میں اضافہ کا باعث بننے والے چھوٹے چھوٹے منصوبے لگا کر دینے کی دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت:  یہ ہے کہ زکاۃ کی رقم سے تیار شدہ منصوبہ غریب لوگوں کی ملکیت میں نہ دیا جائے، یعنی منصوبے میں دکانیں، اور مشینری خرید کر رفاہی ادارے کی ملکیت میں دے دی جائیں، اور زکاۃ کے مستحق افراد انہیں بطور کرایہ دار کے استعمال کریں، تو اس صورت میں زکاۃ خرچ نہیں کی جا سکتی؛ کیونکہ کسی بھی صورت میں اسے غریب لوگوں کی ملکیت  نہیں کہا جا سکتا، البتہ یہ صورت وقف کی ہے، اور وقف و زکاۃ کے اموال میں فرق ہوتا ہے۔

چنانچہ " فتاوى اللجنة الدائمة " (9 / 451) میں ہے کہ:
" البر رفاہی ادارہ مکانات کی تعمیر زکاۃ کے مال سے کر کے انہیں اپنی ملکیت میں رکھے اور لوگوں کو رہائش کیلئے کرایہ پر دے ، ایسا کرنا جائز نہیں ہے؛ کیونکہ اس شکل میں زکاۃ ایسی جہت کی ملکیت میں آ رہی ہے جو زکاۃ اپنی ملکیت میں لینے کا حق نہیں رکھتی، بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ  مستحق لوگوں کو زکاۃ پہنچ ہی نہ سکے، ویسے بھی اس انداز سے زکاۃ کی رقم کو صرف مخصوص فائدے کیلئے بند کر دیا جائے گا، اور مستحقین تک اس کی رسائی مشکل ہوگی، نیز اس طرح کرنے سے زکاۃ کے مصارف میں دخل اندازی کا اندیشہ بھی ہے۔

اجمالی طور پر ایسے منصوبوں کو شروع کیا گیا لیکن ناکام ہوگئے، ناجائز ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس میں شرعی نصوص کی شرعی عذر کے بغیر واضح مخالفت ہے"

دوسری صورت: یہ ہے کہ زکاۃ کے مستحق افراد کو زکاۃ کی رقم دے جائے جس سے وہ اپنے پیشے سے متعلق اوزار خریدے، اور محنت مزدور ی کرے، یا پھر زکاۃ کی یہ رقم ایسی تجارت میں بطور رأس المال لگائے  جس میں اس کے پاس تجربہ بھی ہے  تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔

چنانچہ شافعی فقیہ امام رملی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی کے پاس مناسب فنی مہارت ہے تو اسے اس کے فن سے متعلقہ آلات خرید کر دیے جائیں چاہے کتنے ہی زیادہ کیوں نہ ہوں، اور اگر تجارت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اسے بطور رأس المال زکاۃ کی اتنی رقم دی جائے گی کہ اس کے منافع سے اپنے علاقے میں متوسط درجے کی زندگی گزار سکے" انتہی
" نهاية المحتاج " (6/ 161)

یہ موقف امام احمد رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے، چنانچہ مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ان [امام احمد ] سے منقول ہے کہ: اتنی مقدار میں زکاۃ وصول کر سکتا ہے جس سے اس کی ضروریات ہمیشہ پوری ہوں، مثلاً: تجارت  یا کسی فنی پیشے کیلئے زکاۃ کی اتنی رقم لے جس سے اپنی ضروریات پوری کر سکے، اسی موقف کو صاحب کتاب: "الفائق" نے اختیار کیا ہے، اور یہی موقف  "الرعایہ" میں بھی ہے" انتہی
"الإنصاف" (3/ 238)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اپنی آمدن کے ذرائع میں زکاۃ  لگا سکتا ہے، چاہے زکاۃ کا مال براہ راست اپنی ضروریات میں خرچ نہ کرے"
امام احمد رحمہ اللہ سے کہا گیا: "ایک آدمی کی [صرف اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے]فصل بالکل تیار ہے، لیکن اس کے پاس فصل کی کٹائی کیلئے رقم نہیں ہے تو کیا زکاۃ کی رقم  سے فصل کی کٹائی کروا سکتا ہے؟ تو انہوں نے کہا: زکاۃ کی رقم لیکر فصل کی کٹائی کروائے" انتہی
" المستدرك على فتاوى ابن تيمية " (1 / 132)

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب