ہفتہ 11 شوال 1445 - 20 اپریل 2024
اردو

کفار کے قبرستان میں باغبانی کرنے کا کیا حکم ہے؟

216095

تاریخ اشاعت : 30-07-2015

مشاہدات : 6447

سوال

سوال: میں فن لینڈ کا نوجوان شہری ہوں، اور ایک سال پہلے میں مسلمان ہوا ہوں، میں اپنے غیر مسلم خاندان کیساتھ رہتا ہوں، اور میں اس بات کا حکم جاننا چاہتا ہوں کہ عیسائیوں کے قبرستان میں کام کرنے کا کیا حکم ہے؟
یہ بات ذہن نشین رہے کہ کام کی نوعیت کا عیسائی مذہبی تہواروں اور مذہبی شعائر یا قبروں کی تیاری اور تدفین سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ صرف باغبانی سے متعلقہ کام ہیں مثلا: باغیچے اور بیل بوٹوں کا ہر طرح سے خیال رکھنا، اور راستہ صاف کرنا ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ کیلئے کفار کے قبرستان میں باغبانی کا کام کرنا جائز نہیں ہے، اسکی دو وجوہات ہیں:

اول:

قبروں پر پھول اور بیل بوٹے، اور درخت لگانا شرعی عمل نہیں ہے، چنانچہ اگر مسلمانوں کے قبرستان میں بھی ہوتا تو یہ عمل جائز نہیں ہے، تو غیر مسلموں کے قبرستان میں کیسے جائز ہوسکتا ہے؟!

چنانچہ شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"قبرستان میں شجر کاری جائز نہیں ہے، اس میں عیسائیوں کی مشابہت ہے جو اپنے قبرستان کو باغیچہ بنا کر رکھتے ہیں، اس لئے درختوں کو اور درختوں کی آبیاری کیلئے لگائی گئی ٹوٹیوں کو ہٹا لازمی ہے"انتہی
" فتاوى ورسائل شيخ محمد بن ابراہیم " (3/200)

علمائے ازہر میں سے شیخ علی محفوظ کہتے ہیں:
"قبرستان میں رہائشی مکان بنانا، شجر کاری کرنا ، اور پانی  لگانا جائز نہیں ہے، یہ تمام کے تمام افعال سنگین بدعات ہیں، اور مسلمانوں کے حقوق غصب کرنے کے مترادف ہیں، اور ان امور میں ایسی خرابیاں ہیں جو کسی بھی صاحب بصیرت سے پوشیدہ نہیں" انتہی " الإبداع في مضار الابتداع " (ص181)

علمائے کرام کی سپریم کونسل  نے قبرستان میں شجر کاری کو حرام قرار دیا ہے، انکی قرار داد میں ہے کہ:
"پوری کونسل کا بالاجماع متفقہ طور پرفیصلہ ہے کہ: قبرستان میں شجرکاری، لائٹنگ، یا کسی بھی انداز سے زیبائش و آرائش کا عمل حرام ہے؛ تا کہ قبرستان کو اسی حالت میں رکھا جائے جیسے کہ سلف صالحین کے دور میں تھا، اور اس لئے بھی کہ قبرستان وعظ و نصیحت کی جگہ بنی رہے"انتہی
منقول از کتاب: " نيل المآرب " از: شيخ بسّام (1/512)
مزید کیلئے سوال نمبر: (14370) کا مطالعہ کیا جائے۔

دوم:

کفار کو انکی قبروں میں عذاب دیا جاتا ہے، اور ہمیں عذاب والی جگہوں پر ٹھہرنے سے بھی منع کیا گیا ہے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے: (ان عذاب زدہ لوگوں کے علاقے میں تم روتے ہوئے ہی جاؤ ، اور اگر تم رو نہیں رہے تو ان کے علاقے میں مت جاؤ، کہیں تمہیں بھی وہی عذاب نہ پکڑ لے جس نے اُنہیں پکڑا تھا)بخاری: (433) مسلم: (2980)

چنانچہ انکی قبروں کے پاس  سے گزرتے ہوئے رونا، اللہ سے ڈرنا، اور اللہ  کی بارگاہ میں اپنی ناتوانی کا اظہار لازمی ہے۔

امام نووی نے سابقہ حدیث پر عنوان قائم کرتے ہوئے کہا: "باب ہے : ظالموں کی قبروں، اور انکے مرنے کی جگہوں سے گزرتے ہوئے رونے ، خوف کھانے، اور اللہ تعالی  کیلئے نا توانی کا اظہار کرنے  اور اِن جیسی غفلت سے بیزار رہنے کے بارے میں"انتہی
"رياض الصالحين " (ص: 297)

اور قرطبی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"اسی پر کچھ علمائے کرام نے کفار کے قبرستان میں داخل ہونا بھی شامل کیا ہے، چنانچہ اگر انسان اس قسم کی جگہوں پر داخل ہوجائے تو اسی انداز سے داخل ہو جیسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے داخل ہونے کا طریقہ بیان کیا ہے، جو کہ عبرت حاصل کرنے، خوف کھانے، اور جلدی سے گزر جانے پر مشتمل ہے"انتہی
" تفسير قرطبی" (10/46)

ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"یہ حدیث عذاب کی جگہوں میں جانے سے ممانعت کیلئے واضح نص ہے، ہاں صرف  خشوع اور عبرت حاصل کرنے کی کامل ترین صورت میں ہی داخل ہونے کی اجازت ہے، اور وہ اللہ کے ڈر سے رونے، اور عذاب ِ الہی کا خوف  جو اس جگہ رہنے والوں پر نازل ہوا تھا؛  پر مشتمل ہے، یقینا اس انداز سے ہٹ کر وہاں جانے والوں  کے بارے میں اسی عذاب کا خدشہ ہے جو یہاں کے باسیوں پر نازل ہوا تھا۔۔۔
اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ایسی جگہ رہائش اختیار کرنا، اور اقامت پذیر ہونا بھی جائز نہیں ہے، اس بارےمیں متعدد علمائے کرام نے واضح لفظوں میں یہ بات کہی ہے، جن میں خطابی کے کیساتھ ساتھ دیگر علمائے کرام بھی ہیں جبکہ احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اس پر دو ٹوک الفاظ میں ممانعت ذکر کی ہے"

سفارینی رحمہ اللہ  کہتے ہیں:
"اس حدیث میں ان جگہوں سے دور رہنے کی ترغیب دلائی گئی ہے جہاں اللہ کا غضب نازل ہوا، ظالموں کی قبروں ، انکے رہائشی علاقوں ، اور ان پر غفلت کے باعث آنے والے عقاب و عذاب  الہی کی جگہوں سے بھی دور رہنے کی ترغیب  ہے"انتہی
"شرح ثلاثيات المسند " (1/51)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جو شخص غضب الہی، اور عذاب الہی کا شکار ہونے والے علاقوں کے قریب سے گزرے تو اس کیلئے اندر جانا ، وہاں پر پڑاؤ ڈالنا مناسب نہیں ہے، بلکہ  وہاں سے تیز چلتا ہوا، منہ کو  چھپا کر نکل  جائے، اور وہاں اندر جائے بھی تو صرف روتے ہوئے، اور عبرت حاصل کرتے ہوئے داخل ہو۔
اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  بھی منی اور عرفات کے درمیان وادی محسر سے تیزی کیساتھ گزرے تھے، کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر اللہ تعالی نے اصحاب الفیل کو غارت فرمایا تھا"انتہی
"زاد المعاد" (3/488)

خلاصہ کلام یہ ہے کہ:

کفار کے قبرستان میں باغبانی کرنا حرام کاموں میں سے ہے، جو کسی مسلمان کیلئےجائز نہیں ہے، اس لئے کسی اور جائز کام کو تلاش کیا جائے۔

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب